انٹرنیشنل

چین نے امریکا اور یورپی کار بنانے والی آٹو کمپنیوں کی حکمرانی کیسے ختم کی؟

2023ء میں دنیا بھر میں 50 لاکھ سے زیادہ چینی گاڑیاں فروخت ہوئیں اور دنیا بھر میں گاڑیوں کی برآمدات کے حوالے سے چین نے جاپان کو بھی پیچھے چھوڑ دیا

چین (مانیٹرنگ ڈیسک) چین نے ایک اور کارنامہ سر انجام دیتے ہوئے امریکا اور یورپ میں بنانے والی آٹو کمپنیوں کی حکمرانی کیسے ختم کی؟ اس حوالے سے اہم رپورٹ سامنے آگئی۔

انٹرنیشنل میڈیا کے مطابق ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چین نے اپنی بنائی ہوئی کاروں اور لگژڑی گاڑیوں کی تیاری اور دنیا بھر میں ڈیمانڈ بڑھانے کے لئے آٹو انجینئرز اور مکینکس کو بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنے کے لئے خود مختار بننے میں مدد دی جس کے بعد آج امریکا اور یورپ کے تمام بڑے برانڈز چین میں تیار ہو رہے ہیں اور دنیا بھر میں ان کی کھپت اور ڈیمانڈ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق 1970ء کی دہائی کے وسط تک چین میں کاروں کی پروڈکشن نہ ہونے کے برابر تھی۔ شروع میں گاڑیاں صرف اعلی سرکاری عہدیداروں کے پاس ہوا کرتی تھیں اور عام شہری گاڑی خریدنے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔رپورٹ کے مطابق یہ وہ وقت تھا جب بیجنگ میں ہر دو میں سے ایک شخص کے پاس ذاتی سواری کے طور پر سائیکل ہو کرتی تھی تاہم اس کے بعد کی چار دہائیوں کے دوران چین میں گاڑیوں کی صنعت نے بے مثال ترقی کی اور چین دنیا کو گاڑیاں برآمد کرنے والا بڑا ملک بن گیا۔ حالیہ رپورٹس کے مطابق امریکہ میں صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ اب اس حوالے سے بھی غور کر رہی ہے کہ آیا قومی سلامتی کو لاحق خطرات کو دیکھتے ہوئے چینی گاڑیوں کی درآمد پر پابندی اور بھاری درآمدی ڈیوٹی نافذ کی جائے۔ سنہ 2023 میں دنیا بھر میں 50 لاکھ سے زیادہ چینی گاڑیاں فروخت ہوئیں اور دنیا بھر میں گاڑیوں کی برآمدات کے حوالے سے چین نے گاڑیاں بنانے کے لیے مقبول ملک جاپان کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔

سنہ 2023 ہی میں چین کی الیکٹرک کار کمپنی بی وائے ڈی نے عالمی سطح پر معروف بڑی کمپنی ٹیسلا کو پیچھے چھوڑا ہے جس پر ایلون مسک نے تسلیم کیا کہ کئی لوگوں کا خیال ہے کہ دنیا کی 10 بہترین کمپنیوں میں ٹیسلا اور نو دیگر چینی کار کمپنیاں ہوں گی۔ مجھے لگتا ہے وہ غلط نہیں کہہ رہے۔ ورلڈ بینک کی ایک تحریر ایک ارب سائیکلوں سے ایک ارب کاروں تک کے مطابق ستر اور اسی کی دہائیوں کے دوران ایک چینی خاندان کے لیے سائیکل خریدنا بڑا مالیاتی فیصلہ سمجھا جاتا تھا۔ دارالحکومت بیجنگ میں 76 فیصد روڈ سپیس پر سائیکل چلتی تھی اور ہر دوسرے شخص کے پاس سائیکل تھی تاہم اگلے 20 برسوں کے دوران چین میں فیملی کار کا تصور پھیلا اور کار اونرشپ یعنی کاریں خریدنے کے رجحان میں تیزی آئی۔

ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت (یعنی 2004 میں) بیجنگ کی سڑکوں پر 40 لاکھ سائیکلیں جبکہ 20 لاکھ کاریں چلتی تھیں۔ ایک اندازے کے مطابق 2002 کے دوران چین کے ہر 100 گھروں کے پاس 143 سائیکلیں ہوا کرتی تھیں۔ ملک میں سالانہ بائیک ٹیکس چار یوآن تھا جسے گاڑیوں کی مقبولیت کے بعد ختم کرنا پڑا۔ سوشلسٹ چین میں مقامی سطح پر گاڑیوں کی تیاری نہ ہونے کی وجہ سے اور اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے گاڑیاں درآمد کی جاتی تھیں۔ اس وقت تک چین میں غیر ملکی گاڑیوں پر 260 فیصد امپورٹ ڈیوٹی لاگو تھی۔ سنہ 1979 میں چین نے آٹو سیکٹر میں غیر ملکی سرمایہ کاری اور جوائنٹ وینچرز (اشتراک) کو فروغ دینے کے لیے نئے قانون کی منظوری دی جس نے امریکی اور یورپی کار کمپنیوں کی توجہ حاصل کی۔ اس طرح چین میں گاڑیوں کی صنعت نے کچھ تیزی پکڑی۔ جیسے ایک چینی کمپنی شنگھائی آٹو موٹو انڈسٹری کارپوریشن (ایس اے آئی سی) کا اشتراک جرمن کمپنی وولکس ویگن سے ہوا اور اسی دوران ایک دوسری چینی کمپنی بیجنگ آٹو موٹو انڈسٹری کارپوریشن (بی اے آئی سی)نے امریکی کمپنی امریکن موٹرز کارپوریشن (اے ایم سی)کے ساتھ اشتراک کیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button