کمزور اکثریت، مودی وزیراعظم بن پائیں گے یا نہیں؟ سوال کھڑے ہو گئے
وزیر اعظم نریندر مودی، جواہر لعل نہرو کے بعد مسلسل تیسری بار پارلیمانی انتخابات جیتنے والے پہلے سیاسی رہنما بن گئے ہیں: بھارتی الیکشن نتائج
بھارت(مانیٹرنگ ڈیسک) بھارت میں ہونے والے لوک سبھا انتخابات میں کمزور اکثریت کے باعث مودی وزیراعظم بن پائیں گے یا نہیں؟ اس حوالے سے نئے سوالات کھڑے ہو گئے ہیں۔
انٹرنیشنل میڈیا کے مطابق بھارتی الیکشن نتائج کے مطابق وزیر اعظم نریندر مودی، جواہر لعل نہرو کے بعد مسلسل تیسری بار پارلیمانی انتخابات جیتنے والے پہلے سیاسی رہنما بن گئے ہیں تاہم بی جے پی وہ بھاری اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے جس کا دعوی انتخابات سے قبل کئی بار کیا گیا۔ ایسے میں یہ سوال بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا نریندر مودی تیسری بار وزیر اعظم بھی بن پائیں گے یا نہیں۔
بی جے پی کے دعوؤں اور ایگزیٹ پولز کی توقعات کے برعکس انڈیا کے پارلیمانی انتخابات میں حیرت انگیز نتائج دیکھنے کو ملے اور کانگریس کی قیادت میں اپوزیشن اتحاد مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کو نمایاں طور پر کمزور کرنے میں کامیاب رہا ہے۔اب تک کے رجحانات کے مطابق بی جے پی کی قیادت میں سیاسی جماعتوں کا اتحاد نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) 543 میں سے 292 نشستوں کے ساتھ انتخابات جیتنے کی طرف گامزن ہے اور کانگریس کی قیادت میں اپوزیشن انڈیا اتحاد کو 234 نشستیں ملی ہیں۔ الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ کے مطابق تمام نتائج کا اعلان کر دیا گیا ہے اور حکمراں بی جے پی 240 سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے، جو 2019 ء کے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کی جیتی گئی سیٹوں سے تقریبا 60 کم ہیں۔ دوسری جانب کانگریس کو 99 سیٹیں ملی ہیں جو کہ سنہ 2019ء کے انتخابات کے مقابلے میں تقریبا دو گنا ہیں۔
واضح رہے کہ انڈیا میں سیاسی جماعتوں یا ان کے اتحادیوں کو مرکز میں حکومت بنانے کے لیے کم از کم 272 نشستیں درکار ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس طرح کے غیر متوقع نتائج کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعتیں مرکز میں حکومت بنانے میں کامیاب رہیں گی لیکن انھیں ہمیشہ یہ خطرہ رہے گا کہ حزب اختلاف حکمراں اتحاد سے ناراض جماعتوں کو اپنی جانب راغب کرکے ان کے لیے مشکلات پیدا کر سکتی ہے۔ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ بی جے پی کے لیے کمزور مینڈیٹ کا مطلب یہ ہو گا کہ پچھلی حکومت کے برعکس پارٹی کو ممکنہ طور پر اپنے نامکمل ایجنڈے کو جاری رکھنے کے لیے علاقائی جماعتوں کی حمایت کی ضرورت ہو گی۔