انٹرنیشنل

یوکرین میں سستے اور خطرناک روسی بم کیسے تباہی مچا رہے ہیں؟ دنیا بھر میں تشویش کی لہر

گلائیڈ بم تیار کرنے کے لیے روس سوویت زمانے کے بم استعمال کر رہا ہے جس کے باعث ان پر لاگت انتہائی کم آتی ہے جبکہ شدت میں یہ کسی میزائل سے کم مہلک نہیں

روس(مانیٹرنگ ڈیسک) یوکرین میں سستے اور خطرناک روسی بم کیسے تباہی مچا رہے ہیں اس حوالے سے سامنے آنے والی رپورٹ نے دنیا بھر میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔

انٹرنیشنل میڈیا کے مطابق روس کی جانب سے یوکرین میں جنگ کے دوران سستے لیکن انتہائی مہلک گلائیڈ بموں کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ پچھلے ایک ہفتے کے دوران روس نے خارکیو پر قبضے کے لیے یوکرین کے شمالی قصبے ووچانسک پر 200 سے زائد گلائیڈ بم گرائے ہیں۔ یوکرینی صدر ولادیمیر زیلینسکی کا کہنا ہے کہ صرف مارچ کے مہینے میں 3,000 گلائیڈ بم گرائے گئے ہیں۔ ووچانسک پولیس کے سربراہ اولیکسی خرکیووسکی ان افراد میں سے ہیں جنھوں نے ان بموں کی تباہ کاری کو قریب سے دیکھا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ آپ ان گلائیڈ بموں کی تباہ کاریوں کو الفاظ میں بیان نہیں کرسکتے، جب آپ [حملہ کے مقام] پہنچتے ہیں تو دیکھتے ہیں کے لوگوں کے چیتھڑے اڑے ہوئے ہیں۔

خرکیووسکی روسی پیش قدمی سے متاثرہ خارکیو کے سرحدی دیہات سے انخلا کے کام میں ملوث ہیں۔ ان کے مطابق گذشتہ چھ مہینوں کے دوران روس کی جانب سے ہر ہفتے پانچ سے 10 گلائیڈ بم گرائے جاتے تھے لیکن رواں ماہ ان کی تعداد میں ڈرامائی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ روس کی جانب سے گلائیڈ بموں کا بڑے پیمانے پر استعمال یوکرینی فوج کے لیے تباہ کن ثابت ہو رہا ہے۔ سینٹر فار یورپی پالیسی اینالیسس (سیپا – CEPA)کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گلائیڈ بموں نے فروری میں آوودیفکا پر روسی قبضے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اب روسی افواج ان بموں کا استعمال یوکرین کے شمالی شہر خارکیو پر پیش قدمی کے لیے کر رہی ہی اور بظاہر یوکرین کے پاس ان بموں کا کوئی توڑ نہیں ہے۔

گلائیڈ بم تیار کرنے کے لیے روس سوویت زمانے کے بم استعمال کر رہا ہے جس کے باعث ان پر لاگت انتہائی کم آتی ہے جبکہ شدت میں یہ کسی میزائل سے کم مہلک نہیں۔ پروفیسر جسٹن برنک رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ میں ایئر پاور اور ملٹری ٹیکنالوجی کے ماہر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گلائیڈ بم کا دھماکا خیز حصہ بنیادی طور پر ایک روایتی فری فال آئرن بم ہے۔ روس کے پاس سوویت دور کے ان فری فال آئرن بموں کا وسیع ذخیرہ ہے۔ گلائیڈ بم بنانے کے لیے ان پرانے بموں پر فولڈ آٹ ونگز اور سیٹلائٹ نیویگیشن سسٹم لگا دیے جاتے ہیں۔ ان بموں میں پاپ آٹ ونگز لگے ہوتے ہیں جو بم گرائے جانے کے بعد کھل جاتے ہیں اور اس کی وجہ سے یہ بم کافی فاصلے تک مار کرسکتے ہیں۔ ان بموں میں لگے سیٹلائٹ گائیڈنس سسٹم کی مدد سے انھیں کسی بھی ٹارگٹ کو باآسانی نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔

پروفیسر برونک کے مطابق ان بموں پر لگائے جانے والے گلائیڈ کٹس میکانکی لحاظ سے انتہائی سادہ ہیں جو باآسانی بڑے پیمانے پر تیار کیے جارہے ہیں۔ یہ بم روسی فوج کو لاکھوں ڈالر کے میزائل جیسی صلاحیت فراہم کرتا ہے لیکن اس کی لاگت اس سے کئی گنا کم ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ایک گلائیڈ بم 20 سے 30 ہزار ڈالر میں تیار ہوجاتا ہے تاہم اس طرح کے بموں کا تصور نیا نہیں ہے۔ جرمن فوج نے دوسری عالمی جنگ کے دوران فرٹز ایکس (Fritz-X) استعمال کیے تھے جبکہ 1990 کی دہائی میں امریکی فوج نے جوائنٹ اٹیک ڈائریکٹ میونیشن تیار کیا تھا جس میں روایتی فری فال بموں میں ٹیل فین اور جی پی ایس گائیڈنس سسٹم لگا دیا تھا۔ یہ بم بڑے پیمانے پر عراق اور افغانستان میں استعمال کیے گئے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button