کھوج بلاگ

”اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر جناب ابراہیم رئیسی شہید، ایک عہد ساز شخصیت ”

ابراہیم رئیسی کو اقتدار میں آنے کے فوری بعد سے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر سخت چیلنجز کا سامنا رہا' رئیسی کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کے الزام میں واشنگٹن کی پابندیوں کی بلیک لسٹ میں رکھا گیاا

تحریر : شکیلہ فاطمہ
اتوار کے روز 63 سالہ اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی صحت اور سلامتی سے متعلق خدشات اس وقت پیدا ہوئے، جب ایرانی سرکاری خبر رساں ایجنسی کی جانب سے یہ خبر سامنے آئی کہ جناب ابراہیم رئیسی آذربائیجان کی سرحد پر واقع ایک ڈیم کا افتتاح سے واپسی کے دوران ان کے ہیلی کاپٹر کو دور افتادہ مغربی پہاڑی علاقے میں حادثہ پیش آیاجبکہ حادثے کی وجہ خراب موسم کو قرار دیا گیا تاہم رئیسی کی حالت کے بارے میں کوئی خبر سامنے نہ آئی اور انکی سلامتی کیلئے دعا کی اپیل کی گئی۔ جب ہیلی کاپٹر کی تلاش کیلئے امدادی ٹیمیں ایران کے صوبے مشرقی آذربائیجان میں پہنچی جہاں شدید دھند چھائی ہوئی تھی تو اس وقت اسلامی جمہوریہ ایران کے سرکاری ٹی وی نے رئیسی کے آبائی شہر مشہد میں وفادار نماز کی فوٹیج نشر کی۔ بعد ازاں تلاش بسیار کے بعد ترکی کے ایک ڈرون نے ہیلی کاپٹر کے ملبے کی نشاندہی کی اور جب امدادی ٹیمیں جائے وقوعہ پر پہنچی تو موقع پر زندگی کے آثار نہیں تھے جناب ابراہیم رئیسی کے ہمراہ وزیر خارجہ، گورنر تبریز اور دیگر بھی شہید ہو چکے تھے۔ یہ علاقہ انتہائی دشوار گزار پہاڑیوں اور جنگلات سے ڈھکا ہوا تھا اور اس وقت وہاں بارش ‘شدید دھند چھائی کے ساتھ ساتھ بہت زیادہ سردی تھی جس کی وجہ سے امدادی کارروائیوں میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔ ایران میں چھ دن کا سوگ جبکہ پاکستان میں آج پرچم سرنگوں اور ایک دن کے سوگ کا اعلان کیا گیا ہے۔ جناب ابراہیم رئیسی ابھی 22 اپریل کو پاکستان کا تین روزہ سرکاری دورہ کر کے گئے تھے اور یہ شاید انکا آخری غیر ملکی سرکاری دورہ تھا۔ جناب ابراہیم رئیسی شہید 1960ء میں ایران کے شمال مشرقی شہر مشہد میں پیدا ہوئے انہوں نے خامنہ ای کے زیر سایہ دینیات اور اسلامی فقہ اور قانون کی تعلیم حاصل کی اور پی ایچ ڈی کرنے کے بعد وہ ڈاکٹر ابراہیم ریئسی کے نام سے جانے جانے لگے۔ انہوں نے محترمہ جمیلہ عالم الحودہ سے شادی کی اور ان کی دو بیٹیاں ہیں۔نام نہاد امریکی حمایت یافتہ بادشاہت کا تختہ الٹنے اور اسلامی انقلاب کے دور میں 20 سالہ ابراہیم رئیسی کو ایرانی شہر ”کرج ” کا پراسیکیوٹر جنرل نامزد کیا گیا۔انہوں نے 1989ء سے 1994ء تک تہران کے پراسیکیوٹر جنرل، 2004ء سے ایک دہائی تک جوڈیشل اتھارٹی کے ڈپٹی چیف اور پھر 2014ء میں نیشنل پراسیکیوٹر جنرل کے طور پر اپنے فرائض انجام دیئے۔ابراہیم رئیسی کو اقتدار میں آنے کے فوری بعد سے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر سخت چیلنجز کا سامنا رہا۔رئیسی کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے الزام میں واشنگٹن کی پابندیوں کی بلیک لسٹ میں بھی رکھا گیا۔2016ء میں سپریم لیڈر خامنہ ای نے رئیسی کو ایک چیریٹی فاؤنڈیشن کا انچارج مقرر کیا۔ یہ خیراتی ادارہ مشہد میں موجود امام رضا کے مزار کا انتظام سنبھالے ہوئے ہے۔تین سال بعد ایرانی سپریم لیڈر نے انہیں جوڈیشل اتھارٹی کا سربراہ مقرر کر دیا۔ رئیسی ایران میں انتہائی طاقتور سمجھی جانے والی ماہرین کی اسمبلی کے رکن بھی رہے، جو ایران میں سپریم لیڈر کا انتخاب کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔رئیسی کے صدر منتخب ہونے کے چند ماہ بعد ایرانی میڈیا نے انہیں شیعہ علماء کی درجہ بندی میں اعلیٰ مقام کے حامل آیت اللہ کے نام سے پکارنا شروع کیا۔ ابراہیم رئیسی نے 2021ء کے انتخابات میں کامیابی کے بعد ملکی اقتدار سنبھالا لیکن پھر جلد ہی انہیں قومی سطح پر کئی مظاہروں اور عوامی تناؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ خامنہ ای کے نقش قدم پر چلتے ہوئے رئیسی نے بھی ہمیشہ اہم ملکی اور بین الاقوامی امور کے حوالے سے ایک سخت لہجہ اور مؤقف اپنائے رکھا۔شیعہ اکثریتی ملک ایران ہمیشہ اعلانیہ اپنے دشمنوں امریکہ اور اسرائیل کی کھل کر مخالفت کرتا آیا ہے۔رئیسی نے ایک ایسے الیکشن کے نتیجے میں اقتدار سنبھالا تھا، جس میں ملک کی آدھے سے زائد آبادی نے اپنا ووٹ کا حق استعمال ہی نہیں کیا اور کئی مخالفین کو ان کے خلاف الیکشن لڑنے سے بھی روک دیا گیا تھا۔ رئیسی نے عملیت اور اعتدال پسند حسن روحانی کی جگہ لی تھی۔ روحانی کو دنیا عالمی طاقتوں کے ساتھ 2015 کا جوہری معاہدہ طے کرنے کے حوالے سے یاد رکھتی ہے، جس کے نتیجے میں ایران پر عائد کئی غیر ملکی پابندیاں ہٹا دی گئی تھیں۔دوسرے قدامت پسند ایرانی رہنماؤں کی طرح رئیسی نے بھی اس وقت کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے یکطرفہ طور پر 2018 میں جوہری معاہدے سے علیحدگی اور ایران پر دوبارہ عائد پابندیوں کے بعد واشنگٹن کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ رئیسی نے سماجی اور معاشی بحران میں گھرے ایک ملک کی باگ ڈور سنبھالی۔انہوں نے خود کو ہمیشہ بدعنوانی سے لڑنے والے چیمپیئن اور غریب دوست لیڈر کے طور پر پیش کیا۔ رئیسی کے دور حکومت میں کفایت شعاری کے اقدامات کا اعلان کیا گیا تاہم ایران میں بنیادی ضرورت کی اشیاء کی قیمتیں بڑھنے لگیں، جس کی وجہ سے عوام میں شدید غم و غصہ پیدا ہوا تاہم 2022ء میں تہران نے ایک اور زوال دیکھا، جب خواتین کے لیے ایک مخصوص ڈریس کوڈ کی خلاف ورزی کرنے پر کرد ایرانی خاتون مہسا امینی کی ملکی اخلاقی پولیس کی حراست میں ہلاکت کی خبر شہ سرخیوں میں آئی۔ اس کے بعد ملک گیر احتجاج کے سلسلوں کی ایک ایسی آگ نے زور پکڑا، جس کی تپش ملک میں اب بھی محسوس کی جاسکتی ہے۔مارچ 2023ء میں ایک تاریخی واقعہ پیش آیا جب ایران اور سعودی عرب کے مابین ایک طویل عرصے سے ٹھنڈے پڑے سفارتی تعلقات میں کچھ گرمجوشی پیدا ہوئی۔ ان دونوں ممالک کے مابین دیرینہ علاقائی اور مذہبی خیالات میں تفریق کی وجہ سے پنپتی دشمنی نے ایک حیرت انگیز موڑ لیا۔ ریاض اور تہران کے مابین ایک سفارتی معاہدے کا اعلان اور تعلقات میں بحالی کی خبر جناب ابراہیم رئیسی کے سیاسی کرئیر کا ایک اہم باب رہاتاہم اسرائیل اور حماس کے درمیان سات اکتوبر کو شروع ہونے والی غزہ کی جنگ نے ایک بار پھر علاقائی کشیدگی کو بڑھاوا دیا۔ تہران نے ایک اور بڑا قدم اس وقت اٹھایا، جب دنیا کے نقشے پر موجود بڑی طاقتوں کی پرواہ کیے بغیر اس نے اسرائیل پر دمشق میں ایرانی سفارتی مشن پر حملے کے جواب میں یکے بعد دیگر کئی میزائل داغے۔ڈیم کے افتتاح کے روز ہی ایک بیان میں رئیسی نے فلسطینی عوام کے لیے ایران کی حمایت پر زور دیا یہ اس ملک میں آنے والے اسلامی انقلاب کے بعد سے ملک کی خارجہ پالیسی کا اہم جز رہا ہے۔ پاکستان اس دکھ کی گھڑی میں اپنے ایرانی بھائیوں کے ساتھ برابر شریک ہے اور جناب ابراہیم رئیسی جو ایک مدبر سیاستدان، عالم دین، قانون دان اور مؤقف پر ڈٹ جانے والے لیڈر تھے ، کی شہادت کا خلا تادیر محسوس کیا جاتا رہے گا۔ جناب ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر حادثے میں کسی سازش کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا بہر حال اس کی تحقیق و تفتیش ایران کا اندرونی معاملہ ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button