کھوج بلاگ

بھارتی انتخابات’ اب کی بار ” 400 پار ”مودی کا نعرہ ٹھس ہو گیا؟

ایودھیا، راجستھان، پنجاب، دلی، بنگال ، ہریانہ اور تامل ناڈو میں مودی کی انتہا پسندی کو شکست فاش ہو گئی'بی جے پی اکیلی حکومت بنانے کی صلاحیت سے محروم، اتحادی حکومت بن سکتی ہے جو مودی کے مزاج کے خلاف ہوگی

تحریر : شکیلہ فاطمہ
بھارت میں لوک سبھا کی 543 نشستوں کے لیے سات مختلف مراحل میں ووٹ ڈالے گئے تھے۔ انتخابی عمل کے دوران 66 فی صد سے زیادہ رجسٹرڈ ووٹرز نے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا۔حکمران جماعت بی جے پی حکومت سازی کے لیے ضروری اکثریت سے دور ہے تاہم حکمران اتحاد نیشنل ڈیموکریٹک الائنس کو اکثریت ملنے کا امکان ہے۔ انڈین نیشنل کانگریس کے راہول گاندھی رائے بریلی سے چار لاکھ ووٹوں کے فرق سے بی جے پی کے امیدوار دنیش سنگھ سے جیت گئے ہیں۔ وہ کیرالہ کے وایناڈ سے بھی بڑے فرق سے آگے چل رہے ہیں۔تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق مودی کے این ڈی اے کو 295 اور اور اپوزیشن کے اتحاد انڈیا کو 235 سیٹیں مل سکتی ہیں۔ لوگ سبھا کے لیے ہونے والے انتخابات میں ووٹوں کی گنتی ابھی تک جاری ہے اور نتائج کا اعلان 7 جون کو الیکشن کمیشن کی طرف سے کیا جائے گا تاہم گزشتہ دو انتخابات کے مقابلے میں اس بار بڑی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور انڈیا میں ہونے والے تمام ایگزٹ پول بری طرح غلط ثابت ہوئے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ پول مودی دباؤ میں تھے اور گودی میڈیا ان کو پھیلانے میں پوری توانائیاں صرف کر رہا تھا۔ بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) حکومت سازی کے لیے ضروری اکثریت سے دور ہے۔ تاہم حکمران اتحاد نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) کو اکثریت ملنے کا امکان ہے۔دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد انڈین نیشنل ڈیولپمنٹل انکلیوسیو الائنس (انڈیا) کافی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔گزشتہ دو انتخابات میں اس کی دو سب سے بڑی جماعتوں کانگریس اور سماجوادی پارٹی کی کارکردگی اچھی نہیں تھی لیکن اس بار وہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہیں اور ان کو ملنے والی نشستوں میں کافی اضافے کی امید ہے۔لیکن حکومت کس اتحاد کی بنے گی کس کی نہیں؟ فی الحال حتمی طور پر اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ انتخابات کے بعد ووٹوں کی گنتی جاری ہے اور ابھی رجحانات کی بنیاد پر قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق این ڈی اے کو 295 اور انڈیا کو 235 سیٹیں مل سکتی ہیں۔ حکومت سازی کے لیے 272 سیٹوں کی ضرورت ہوتی ہے۔واضح رہے کہ 19 اپریل سے یکم جون تک بھارت کی مختلف ریاستوں میں لوک سبھا کی 543 نشستوں کے لیے ووٹ ڈالے گئے تھے۔انتخابات میں لگ بھگ ایک ارب لوگ ووٹ ڈالنے کے اہل تھے جن میں سے 66 فی صد سے زیادہ ووٹرز نے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا تھا۔یکم جون کو ووٹنگ کا ساتواں مرحلہ مکمل ہونے کے بعد مقامی میڈیا میں جو ایگزٹ پولز سامنے آئے تھے، ان میں این ڈی اے کو دو تہائی اکثریت ملنے کا امکان ظاہر کیا گیا تھا۔ متعدد ایگزٹ پولز میں کہا گیا تھا بی جے پی تنہا 303 سے زیادہ نشستیں حاصل کر سکتی ہے۔ایگزٹ پولز میں اپوزیشن جماعتوں پر مشتمل اتحاد انڈین نیشنل ڈویلپنگ انکلیوسیو الائنس (انڈیا)کو 60 سے زیادہ نشستیں ملنے کا امکان ظاہر کیا جا رہا تھا۔ تاہم منگل کو آنے والے ابتدائی جائزوں نے ایگزٹ پولز کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا ہے۔ووٹوں کی گنتی سے ملنے والے رجحانات کے مطابق بی جے پی کو ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش (یو پی) میں کافی نقصان ہو رہا ہے وہاں سب سے زیادہ 80 نشستیں ہیں۔ سال 2019 کے انتخابات میں بی جے پی کو یو پی سے 62 نشستیں ملی تھیں لیکن اس بار اسے 33 نشستوں کے ملنے کا امکان ہے جب کہ انڈیا اتحاد کو 43 نشستیں مل سکتی ہیں۔وزیر اعظم نریندر مودی نے رواں سال جنوری میں ایودھیا میں زیر تعمیر نامکمل رام مندر کا افتتاح کیا تھا۔ بعض مبصرین کے مطابق بی جے پی کو امید تھی کہ اس قدم سے ووٹ حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔ ایودھیا اور رام مندر جس حلقے میں آتا ہے وہ فیض آباد کا حلقہ ہے۔ گزشتہ الیکشن میں بی جے پی کے للو سنگھ وہاں سے کامیاب ہوئے تھے۔ لیکن اس بار وہ سماجوادی پارٹی کے اودھیش پرساد سے ہار گئے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انتخابات پر رام مندر کے افتتاح کا کوئی اثر نہیں پڑا۔ بی جے پی نے رام مندر ایشو سے جو توقعات لگا رکھی تھیں وہ پوری نہیں ہوئیں اور رائٹسٹ بیانیہ جو گزشتہ بیس سال سے زور پکڑ رہا تھا وہ اب کمزور ہو رہا ہے اور لوگوں نے مذہب کے بیانئے سے بیزاری کا اظہار شروع کر دیا ہے اس سے انتہا پسندی دنیا میں کمزور ہوگی اور دایاں بازو دکھانے والوں کو اب زیادہ پذیرائی نہیں مل سکے گی۔ اسی رجحان نے اسلاموفوبیا کو جنم دیا ۔ یہ رجحان اسرائیل، یورپ امریکہ اور دیگر کئی ممالک میں دیکھا گیا۔ اترپردیش میں کانگریس اور سماجوادی پارٹی کے درمیان انتخابی اتحاد تھا اور کانگریس رہنما راہول گاندھی اور اکھلیش یادو نے متعدد مشترکہ ریلیاں کی تھیں۔ ان ریلیوں میں بڑی تعداد میں عوام نے شرکت کی تھی۔ ایک مرتبہ الہ آباد کے قریب پھولپور میں ان کی مشترکہ ریلی میں بڑا اجتماع ہونے کی وجہ سے ہنگامہ آرائی ہوئی تھی اور دونوں کو خطاب کیے بغیر واپس ہونا پڑا تھا۔ دونوں جماعتوں نے 2017 کے اسمبلی انتخابات میں بھی اتحاد کیا تھا لیکن اس وقت ان کی کارکردگی بہت خراب رہی تھی اور بہت سے تجزیہ کار دونوں لڑکے کہہ کر ان کا مذاق اڑاتے رہے تھے۔ اس بار کانگریس نے جھک کر اتحاد کیا۔ راہول گاندھی نے اپنی یاتراں سے اپنا سیاسی قد بڑھایا اور اکھلیش نے امیدواروں کے انتخاب میں کامیاب حکمت عملی اختیار کی جس کا نتیجہ ان کی کامیابی کی صورت میں نظر آرہا ہے۔ ریاست کی ایک اور اہم جماعت بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) کی صدر مایاوتی نے 2019 کے الیکشن میں سماجوادی پارٹی کے ساتھ اتحاد کیا تھا اور ان کی پارٹی بی ایس پی کو 10 نشستیں حاصل ہوئی تھیں۔ 2014 میں اس جماعت کو ایک بھی سیٹ نہیں ملی تھی۔ اس مرتبہ بھی بی ایس پی کو ایک بھی سیٹ ملتی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔اترپردیش میں فیض آباد کے علاوہ امیٹھی، رائے بریلی اور وارانسی کی سیٹوں پر لوگوں کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔ گزشتہ الیکشن میں بی جے پی کی اسمرتی ایرانی نے کانگریس کے راہول گاندھی کو تقریبا 50 ہزار ووٹوں سے ہرایا تھا۔ اس بار وہاں سے نہرو گاندھی خاندان کے وفادار کشوری لال شرما کو کانگریس نے امیدوار بنایا تھا۔ ان کے اور اسمرتی ایرانی کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہے اور اسمرتی ایرانی تقریبا ڈیڑھ لاکھ ووٹوں سے ان سے پیچھے چل رہی ہیں۔رائے بریلی سیٹ سے راہول گاندھی انتخاب لڑ رہے تھے جو کہ اس سے قبل سونیا گاندھی کی سیٹ ہوا کرتی تھی۔راہول گاندھی وہاں سے چار لاکھ ووٹوں کے فرق سے بی جے پی امیدوار دنیش سنگھ سے جیت گئے ہیں۔ وہ کیرالہ کے وایناڈ سے بھی بڑے فرق سے آگے چل رہے ہیں۔وارانسی میں ابتدا میں وزیر اعظم نریندر مودی کانگریس کے اجے رائے سے پیچھے تھے۔ لیکن بعد کی گنتی میں انہوں نے سبقت حاصل کی اور اب وہ ڈیڑھ لاکھ ووٹوں سے آگے چل رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ ان کی جیت یقینی ہے تاہم اس بار جیت کا فرق کم رہنے کا امکان ہے۔ گزشتہ الیکشن مودی نے چار لاکھ ووٹوں سے جیتا تھا۔اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ بی جے ہی کو تنہا 244 نشستیں مل سکتی ہیں جب کہ کانگریس کی یہ تعداد تقریبا 100 تک ہے۔اگر این ڈی اے اتحاد حکومت بناتا ہے تو وہ آندھرا پردیش کے تیلگو دیسم پارٹی (ٹی ڈی پی) کے صدر چندر بابو نائڈو اور بہار میں جنتا دل یونائٹڈ (جے ڈی ایس)کے صدر نتیش کمار کی حمایت کے بغیر نہیں بن سکے گی۔ یہ دونوں سیاست دان کیا فیصلہ کرتے ہیں سارا دارو مدار اس پر ہے۔ دونوں پہلے مرکز میں این ڈی اے اور یو پی اے محاذوں کی حکومتوں میں شامل رہے ہیں۔ میڈیا میں ایسی خبریں ہیں کہ نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) کے صدر شرد پوار چندر بابو نائڈو اور نتیش کمار کے رابطے میں ہیں۔اگر دیگر اہم ریاستوں کی صورت حال پر نظر ڈالیں تو مہاراشٹر میں جہاں بی جے پی نے شیو سینا کو توڑ کر اس کے ایک دھڑے کے ساتھ حکومت بنائی تھی۔ این ڈی اے کو 18 اور انڈیا کو 29 سیٹیں مل رہی ہیں۔مودی نے الیکشن جیتنے کیلئے ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کئے۔ مخالفین کو جیلوں میں ڈالا جسکی مثال کشمیری مخالف رہنما اور عام آدمی پارٹی اور دلی کے وزیر اعلی کیجریوال ہیں، گودی میڈیا استعمال کیا ہے، ہندتوا کا سہارا لیا گیا جعلی پول کروائے گئے لیکن اس کے باوجود مودی کا نعرہ ” اب کی بار 400 پار” ٹھس ہو گیا۔ راہول گاندھی نے الزام لگایا ہے کہ مودی نے اپوزیشن کو کچلنے کیلئے ہر حربہ استعمال کیا، آدھی عدلیہ ان کے مخالف تھی اور ایجنسیوں کو بھی ان کے خلاف استعمال کیا گیا لیکن اس کے باوجود مودی کا نعرہ ٹھس ہو گیا۔ ابھی دیکھنا ہوگا کہ آگے چل کر حتمی نتائج کے بعد بھارت میں کیسی حکومت بنتی ہے لیکن ایک بات واضح ہے کہ خطے کے دونوں ملکوں کے سیاسی رہنماں کی چالیں ایک جیسی ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button