کھوج بلاگ

”جڑانوالاسانحہ”پاکستان یا منی پور بھارت ؟

تحریر: شکیلہ فاطمہ
پاکستان کا آئین آرٹیکل 25 (1) میں اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ "تمام شہری قانون کے سامنے برابر ہیں اور قانون کے مساوی تحفظ کے حقدار ہیں۔” آرٹیکل 5 کہتا ہے کہ "اقلیتوں کے لیے اپنے مذاہب کو آزادی سے قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے اور اپنی ثقافتوں کو فروغ دینے کے لیے مناسب انتظامات کیے جائیں گے۔حکومت سانحہ جڑانوالہ جیسے واقعات پر قابو پانے کے لیے سخت اقدامات کرے اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنائے تاکہ تمام شہری خود کو قانون کے تحفظ میں محفوظ محسوس کر سکیں۔
چرچ کو آگ لگا دی گئی، عیسائی آبادی پر بلوائیوں کے حملے گھروں اور دکانوں کو جلا دیا گیا۔ چرچوں میں موجود مقدس اوراق بھی جل گئے۔ اسسٹنٹ کمشنر جڑانوالا ضلع فیصل آباد کا تبادلہ کر دیا گیا بظاہر وجہ اسکا عیسائی ہونا ہے۔ جی یہ اندوہناک واقعہ 16 اگست کو فیصل آباد کے تحصیل ہیڈ کوارٹرز جڑانوالا میں پیش آیا۔ دردناک حقائق یہ ہیں کہ یہ سب کچھ اسی طرح ہوا ہے جس طرح منی پور بھارت میں عیسائی آبادی کے ساتھ ہندووں نے کیا ہے اور کر رہے ہیں’ دونوں جگہ پر نشانہ عیسائی کمیونٹی ہے ۔ منی پور کے واقعات پر پاکستان نے مذمت کی ، سویڈن اور ناروے میں توہین مذہب پر پاکستان بھر میں مظاہرے ہوئے اور جب بھی دنیا کے کسی حصے میں توہین مذہب ہوتی ہے تو پاکستان اس کی بھرپور مذمت ہی نہیں کرتا بلکہ مذہب سے محبت کرنے والے اپنے ہی ملک کی کچھ گاڑیاں کچھ سرکاری املاک کو آگ لگا کر مذہب سے محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس واقعے کے بعد کیا پاکستان منی پور بھارت میں عیسائیوں پر ظلم و ستم جلاو گھیراؤ کی مذمت کر سکتا ہے ؟ کیا پاکستان اس واقعے کے بعد فرانس، سویڈن ، ہالینڈ اور ناروے وغیرہ میں ہونے والے توہین مذہب پر احتجاج کر سکتا ہے اور کیا مذہب سے محبت کرنے والے جلسے جلوس کر سکتے ہیں جن میں ان ممالک کو گالیاں دینا ، ان کا بائیکاٹ کرنا اور سفیروں کو نکالنے کے مطالبے کرنا ہوتے ہیں۔ اگر اب عیسائی ممالک میں ایسے جلسے جلوس نکلیں جن میں پاکستان کے بائیکاٹ اور پاکستانی سفیروں کو نکالنے کا مطالبہ کیا جائے تو کیا یہ درست نہیں ہوگا ؟ اور سب سے اہم بات کہ کیا کسی دوسرے مذہب کی عبادت گاہ جلانا، بے گناہ لوگوں کو قتل کرنا، ان کی املاک جلانا وغیرہ توہین مذہب کے زمرے میں نہیں آتا۔ چرچ جلانے کیلئے مسجد سے اعلان کرنا توہین اسلام اور توہین مذہب نہیں ہے ؟ ذرا سوچئے، میں اس سے زیادہ اس کے مذہبی پہلو پر بات کرنے سے گریز کر رہی ہوں اور مذہب سے محبت کرنے والوں اور علما کرام کیلئے چھوڑتی ہوں۔ لیکن اسکا دوسرا پہلو انتظامی غفلت، نااہلی اور نالائقی کی انتہا ہے جسکی وجہ سے پاکستان کو بطور ریاست ساری دنیا میں رسوا ہونا پڑ رہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب مسجد سے اعلان کیا جارہا تھا اور لوگوں کو اس قبیح فعل کیلئے اکسایا جا رہا تھا تو وہاں کے امام مسجد،مسجد کمیٹی، محلوں کے عمائدین اور مذہب کو سمجھنے والے کہاں تھے ؟ اور علاقے کا نمبردار، کونسلر، یونین چیئرمین ، سیاسی زعما کہاں تھے۔ ؟ علاقے کی پولیس کہاں تھی ؟ اور شرپسندوں کو ایسے گھناؤنا کھیل کھیلنے کی جرأت کیسے ہوئی ؟ جواب سادہ ہے ، ہم بحیثیت مجموعی منافق ہیں، جھوٹے ہیں، شعبدہ باز ہیں اور یہ کردار لیڈرز، قاضیان، زعما سب نے ہمیں سکھایا ہے۔ میں حیران ہوتی ہوں کہ وزیر اعلیٰ کہے کہ شرپسندوں کو سزا ہونی چاپیئے ، سیاستدان دکھ کا اظہار فرما رہے ہیں، مذمت کر رہے ہیں ، لیکن یہ کس کو کہہ رہے ہیں کہ سزا ہونا چاہیے یہ میں تو کہہ سکتی ہوں لیکن جن کی ذمے داری لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کرنا وہ نصیحت کے انداز میں ” چاہیے ” جیسے الفاظ کیسے استعمال کر سکتے ہیں۔ علما کھل کے کیوں نہیں کہہ رہے کہ یہ بھی توہین مذہب ہے، چرچ جلانے اور مسجد جلانے میں کوئی فرق نہیں اسلام میں یہ عمل یکساں غیر اسلامی ہے اور توہین مذہب کے زمرے میں آتا ہے۔ تھانیدار، ڈی ایس پی جڑانوالہ، ایس ایس پی اور دیگر پولیس افسران و عملے کو ابھی تک نوکری سے فارغ کر کے جیل میں بند کیوں نہیں کیا گیا۔ وزیر اعلی خود جڑانوالہ کیوں نہیں پہنچے ؟ نگران نقوی وہ سب کام کر رہے ہیں جو ایک منتخب وزیراعلیٰ کے ہوتے ہیں اور بطور نگران یہ امن وامان وغیرہ انکی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ایک ہے جس کی انہیں کوئی پرواہ نہیں ۔ محض ایک بیان دے دینا پاکستان کے ماتھے پر لگی کالک کو صاف کر سکے گا۔ اب تو الیکشن کمیشن نے بھی نگران نقوی کو خط لکھ دیا ہے کہ آپ ہاؤسنگ سوسائٹیز وغیرہ کے این او سیز غیر قانونی جاری کر رہے ہیں اس سے باز رہیں۔ نقوی صاحب دس بار فوٹو سیشن کیلئے پی آئی سی جا چکے ہیں لیکن کل ہی وہاں کی ایک وڈیو لیک ہوئی ہے جس میں مریضوں اور خواتین پر گارڈز تشدد کر رہے ہیں اور ہسپتال انتظامیہ ملبہ مریضوں کے لواحقین پر ڈال رہے ہیں۔ ہم منافق ہیں جھوٹے ہیں بھوکے ہیں کیونکہ ہمارے لیڈرز ہمارے حکمران ہمیں لوٹ رہے ہیں، وہ خود آگ لگواتے ہیں خود دنگا فساد کرواتے ہیں خود جھوٹ بولتے اور ہمیں جھوٹ بولنے کی ترغیب دیتے ہیں ان کے قول و فعل میں تضاد ہے جو منافقت ہے اور اس سے سارے عوام متاثر ہوتے ہیں۔ ہمارے ملک میں سوشل میڈیا شخصیات کی پوجا کرنے اور گالیاں دینے سے بھرا پڑا ہے۔ جناب ہم عذاب مسلسل سے گذر رہے ہیں۔ ہم مداریوں کے رحم و کرم پر ہیں کیونکہ مودی صرف بھارت میں نہیں ہے بلکہ پاکستان میں بھی مودی ازم سر چڑھ کے بولتا ہے۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ اب ہم پر اس راج نیتا عذاب کو ٹال دے، ہمیں جینے کا حق دے ، ہمیں اپنی پناہ میں رکھ اور توہین مذہب سے بچا، توہین انسانیت سے بچا۔ آمین۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button