” قیدیوں کا خط "
پنجاب کی مختلف جیلوں میں پابند سلاسل قیدیوں کا اڈیالہ کے قیدی عمران خان کے برابر سہولیات فراہم کرنے کا مطالبہ
تحریر : شکیلہ فاطمہ
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججوں کے خط کے بعد ایک اور خط منظر عام پر آگیا ۔ محکمہ جیل خانہ جات پنجاب نے ایک خط ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو ارسال کیا ہے جس میں عمران کان کو اڈیالہ جیل میں ملنے والی قانون سے متصادم سہولیات کا تفصیلی احاطہ کیا گیا ہے۔خط کے متن میں بتایا گیا ہے کہ پنجاب کی جیلوں میں اسیر قیدیوں نے بانی پی ٹی آئی کو اڈیالہ جیل میں مہیا کردہ سہولیات کے مساوی سہولیات فراہم کرنے کیلئے آئی جی جیل خانہ جات پنجاب کو درخواستیں دی ہیں۔ ان درخواستوں میں کہا گیا ہے کہ تمام پاکستانی شہری خواہ وہ کسی بھی جگہ ہوں آئین کے آرٹیکل چار کے تحت یکساں سلوک کے حقدار ہیں اور قانون سب کیلئے ایک جیسا ہے لیکن عمران خان اور دیگر قیدیوں کے درمیان غیر مساوی سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ بانی پی ٹی آئی کو اڈیالہ جیل کی بجائے اڈیالہ ریزورٹ میں رکھا گیا ہے۔ محکمہ جیل خانہ پنجاب کے تحریر کردہ خط میں کہا گیا ہے کہ موجودہ حالات کے تناظر میں ایڈووکیٹ جنرل اس معاملہ پر قانونی رائے دیں کیونکہ بانی پی ٹی آئی کو دی گئی سہولیات جیل قوانین سے متصادم ہیں اور یہ تمام سہولیات مختلف معزز عدالتوں کے حکم پر فراہم کی گئی ہیں، خط میں کہا گیا کہ محکمہ قانون معززمتعلقہ عدالتوں سے سہولیات فراہمی پرنظرثانی کیلئے رجوع کرے اور جیل قوانین کے مطابق قیدیوں کو ہفتے میں دو دن ملاقات کی اجازت دی جاتی ہے جبکہ بانی پی ٹی آی کو دن میں چھ سے زاد ملاقاتیں بھی کروای گی اور وکلاء سے الگ ملاقاتیں کرتے ہیں جبکہ جیل مینول کے مطابق قیدی سے اہلخانہ کو ملاقات کی اجازت ہوتی ہے اور عمران خان ‘شاہ محمود قریشی مسلسل سیاسی ملاقاتیں کررہے ہیں اس کے علاوہ جیل قانون کے مطابق ورزش کے لئے مخصوص سائیکل فراہم کرنا بھی جیل قانون سے متصادم ہے، قانون کی شق 261 کے تحت ریفریجٹر کی فراہمی بھی ممنوع ہے اور شق 551اور 556کے تحت قیدی کو آن لان میٹنگ کی اجازت بھی نہیں دی جاسکتی لیکن بانی پی ٹی آئی یہ تمام سہولیات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں اس پہلے ایسی شاہانہ سہولیات کسی قیدی کو نہیں دی گئیں خواہ اسکا رتبہ جو بھی رہا ہو۔ سیاستدانوں میں ذوالفقار علی بھٹو، نصرت بھٹو، بے نظیر بھٹو، نواز شریف، مریم نواز سب جیل میں رہے لیکن کسی کیلئے کسی جیل کو ریزورٹ میں تبدیل نہیں کیا گیا اور کسی عدالت نے قانون سے متصادم سہولیات فراہم کرنے کا حکم جاری نہیں کیا۔ سپریم کورٹ میں وڈیو لنک پر بانی پی ٹی آئی کی حاضری یقینی بنانے کا حکم دیاگیا جس پر عمل کیا گیا اور کل کی سماعت میں عمران خان تمام سماعت کے دوران عدالت میں وڈیو لنک پر موجود رہے انکی ایک تصویر کو وائرل کیا گیا اور بار بار سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر پروپیگنڈہ کیا گیا کہ بانی پی ٹی آئی نے نیلے رنگ کی شرٹ پہن رکھی ہے۔ بین الاقوامی امور پر گہری نظر رکھنے والے بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ اس سارے پروپیگنڈہ کا مقصد جمائما، گولڈسمتھ، اسرائیل اور تمام یہودیوں کو پیغام دینا تھا کہ بانی پی ٹی آئی ان کا نمائندہ ہے اور نیلی شرٹ پہن کر عدالت آنا دراصل اسرائیل کے ساتھ اظہار یکجہتی ہے کیونکہ جنہوں نے اسرائیلی جھنڈا دیکھ رکھا ہے اور وہ نیلے رنگ کے بارے جانتے ہیں کہ اسرائیل کے جھنڈے میں اسکی کیا اہمیت ہے انکو بخوبی اسکا اندازہ ہو گیا ہوگا کہ عمران خان کتنا بڑا کھیل کھیل گیا۔ کیا عدالت عظمی اس کی تحقیقات کروائے گی اور کیا اس نے ایسا جان بوجھ کر کیا اگر یہ سچ ہے تو یہ ایک خطرناک کھیل ہے جس میں سپریم کورٹ کو بھی دھوکا دیا گیا۔ بہرحال اگر قانون سب کیلئے برابر ہے اور عدالت عظمی آئین کی محافظ اور قانون کے یکساں اطلاق کی ذمہ دار ہے تو اس غیر مساوی اور قانون سے متصادم سہولیات کی فراہمی پرنظرثانی کرنا ہوگی اور باقی تمام اسیران کی فریاد کو سننا ہوگا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ جوڈیشل ایکٹوزم جوڈیشل مارشل لاء میں نہ تبدیل ہو جائے کیونکہ چوہدری افتخار کا جوڈیشل ایکٹوزم قوم ابھی تک بھگت رہی ہے۔
بقول داغ دہلوی۔ ۔”تمہارے خط میں نیا اک سلام کس کا تھا
نہ تھا رقیب تو آخر وہ نام کس کا تھا۔”