کھوج بلاگ

مخصوص نشستوں کیلئے پی ٹی آئی کی عدالتی جنگ، قانونی نقاط اور سپریم کورٹ کا عبوری حکم

تحریر : شکیلہ فاطمہ
عدالت عظمی کے تین رکنی بینچ نے پی ٹی آئی اور سنی اتحاد کونسل کی اپیل پر الیکشن کمیشن اور پشاور ہائیکورٹ کے مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلوں کو معطل کر دیا ہے اور پنجاب اسمبلی میں اس عبوری حکم کی تعمیل بھی کر دی گئی جس کے تحت 27 ممبران اسمبلی کی رکنیت سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے تک معطل کر دی گئی ہے۔ اس معاملے کی شروعات کچھ اس طرح ہوئی کہ تحریک انصاف چونکہ بطور سیاسی جماعت 8 فروری کے عام انتخابات میں حصہ نہیں لے رہی تھی اس لئے اس کے حمایت یافتہ امیدوار میدان میں اتارے گئے اور سارے آزاد امیدوار تھے اس لئے انہیں ایک ایسی سیاسی جماعت کی ضرورت تھی جو بطور سیاسی جماعت اپنے نشان پر الیکشن لڑی ہو اور پھر اسمبلی میں پہنچی ہو، جس میں تحریک انصاف کے آزاد امیدوار شمولیت اختیار کرتے اور پھر ممبران کے تناسب سے انکو مخصوص نشستیں الاٹ کی جاتیں لیکن وکیلوں کے زیر اثر تحریک انصاف نے ایک ایسی سیاسی جماعت کا انتخاب کیا جس کے پاس نشان تو تھا لیکن اس نے الیکشن میں حصہ لیا نہ ہی مخصوص نشستوں کی کوئی پارٹی لسٹ الیکشن کمیشن کے پاس جمع کروائی۔ اس بناء پر الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کی منتخب کردہ پارٹی ”سنی اتحاد کونسل” جس کے اپنے سربراہ نے تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار کے طور پر فیصل آباد سے الیکشن لڑا اور خوش قسمتی سے منتخب بھی ہو گئے، ان کو مخصوص نشستوں کیلئے نااہل قرار دے دیا اور تمام6 مخصوص نشستیں دیگر سیاسی جماعتوں میں بانٹ دی گئی۔ تحریک انصاف نے اس فیصلے کو پشاور ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا لیکن پشاور ہائیکورٹ سے آخری فیصلہ تحریک انصاف کے خلاف آیا جسکو سپریم کورٹ میں اپیل کے ذریعے چیلنج کر دیا اور پھر اپیل فوری سماعت کیلئے مقرر بھی ہو گئی اور تین رکنی بینچ نے بہت سارے سوالات اٹھاتے ہوئے عبوری طور پر الیکشن کمیشن اور پشاور ہائیکورٹ کے فیصلوں کو معطل کر دیا اور کیس فائل کمیٹی کو بڑا بینچ بنانے کیلئے بھیج دی اور تاریخ سماعت بھی تین جون مقرر کر دی۔ اب چونکہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے اس لئے اس پر کوئی رائے زنی کرنا مناسب نہ ہوگا تاہم مخصوص نشستوں سے متعلق قانونی نقاط پر بات کرنا توہین عدالت نہیں ہوگی لیکن فیصلہ تو بہر حال سپریم کورٹ ہی کرے گی۔ مخصوص نشستوں کیلئے جنرل مشرف نے الیکشن آرڈر 2002 میں صدارتی حکم کے ذریعے قانونی سازی کی گئی جس کی اجازت جنرل پرویز مشرف کو اس وقت سپریم کورٹ نے دی تھی اور 2002ء کے انتخابات الیکشن آرڈر 2002ء کے تحت ہی ہوئے۔ بعد ازاں 2010ء میں جب 18ویں آئین لائی گئی تو اس آرڈر کے کچھ ناپسندیدہ آرٹیکل کو نکال دیا گیا جن میں زیادہ اہم امیدوار کا گریجویٹ ہونا، کاغذات نامزدگی خود جمع کروانا اور دو مرتبہ سے زیادہ وزیر اعظم نہ بن سکنا شامل تھے لیکن خواتین اور نان مسلم کی نشستوں، اسمبلیوں کی نشستوں کی تعداد میں اضافہ اور سینٹ کیلئے مخصوص نشستوں اور مجموعی نشستوں میں اضافے کو برقرار رکھا گیا۔ مخصوص نشستوں سے متعلق قانونی نقاط کچھ اس طرح سے ہیں۔ 1۔ آئین کا آرٹیکل 51 اور 106 جس میں کچھ اس طرح کہا گیا ہے کہ خواتین اور نان مسلم کی مخصوص نشستیں الیکشن لڑ کر جیتنے والی پارٹیوں میں انکے ممبران کے تناسب سے تقسیم کی جائیں گی جبکہ آزاد جیتنے والے اگر کسی پارٹی میں شامل ہوتے ہیں تو وہ بھی اس پارٹی کے کل ممبران میں گنے جائیں گے۔ اسی طرح قانون یعنی الیکشن ایکٹ مجریہ 2017ء کی سیکشن 104 میں بھی یہی وضاحت دی گئی ہے کہ جو پارٹی الیکشن لڑے وہ مخصوص نشستوں کیلئے اپنی ترجیحی پارٹی لسٹ الیکشن کمیشن کے پاس جمع کروائے گی اور پھر جیتنے والے ممبران کی تعداد کے تناسب سے اسکو مخصوص نشستیں الاٹ کی جائیں گی۔ اب قانون کو اگر سیدھا سیدھا پڑھا جائے تو مخصوص نشستوں کیلئے پارٹی کا الیکشن لڑنا لازم ہے اور پھر مخصوص نشستوں کی لسٹ بھی جمع کروانا لازم ہے اور جیتنے والی سیاسی جماعتوں کو آزاد ارکان تین دن کے اندر جوائن کر سکتے ہیں اور تناسب صرف سیاسی جماعتوں جو الیکشن لڑ کر اور جیت کر اسمبلی میں پہنچی ان کے اپنے ٹکٹ پر جیتنے والے ارکان اور وہ ارکان جو آزاد امیدوار کی حیثیت سے جیتے اور کوئی پارٹی جوائن کی وہ کل ارکان تصور ہونگے اور جو آزاد کسی پارٹی میں شامل نہیں ہوتے تو وہ اس اسمبلی کے مجموعے میں شامل نہیں ہونگے۔ اب سنی اتحاد کونسل نے نہ ہی الیکشن لڑا اور نہ ہی مخصوص نشستوں کیلئے کوئی پارٹی ترجیحی لسٹ جمع کروائی اس لئے کسی ایسی جماعت کو مخصوص نشستیں الاٹ نہیں ہو سکتیں کیونکہ انکا کوئی اہل امیدوار نہیں ہے جسکو ایم پی اے یا ایم این اے بنایا جا سکے۔ اس قانون کے مطابق تو الیکشن کمیشن اور پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے درست معلوم ہوتے ہیں ۔ ابھی سپریم کورٹ نے ان فیصلوں کو معطل کیا ہے اور آئین کی تشریح کی بات کی ہے۔ جب آرٹیکل 63 اے کا ریفرنس دائر کیا گیا تو میں نے لکھا تھا کہ یہ ریفرنس نہیں بنتا کیونکہ 63 اے میں کوئی ایسی بات نہیں لکھی ہوئی جسکی تشریح درکار ہو اور پھر جناب جسٹس یحی آفریدی صاحب نے بھی اپنے اختلافی فیصلے میں اس ریفرنس کو وقت کا ضیائع اور ناقابل سماعت قرار دیا تھا لیکن سپریم کورٹ نے اسکی تشریح کرنے کی بجائے 63 اے کو نئے سرے سے لکھ دیا جو صرف پارلیمنٹ کا اختیار تھا اور قانونی ماہرین اسکو سپریم کورٹ کا اختیار سے تجاوز قرار دیتے ہیں کیونکہ آئین سازی اور اس میں ترمیم صرف پارلیمنٹ کر سکتی ہے اور سپریم کورٹ صرف کسی آرٹیکل کی تشریح کر سکتی ہے کہ اسکو آرٹیکل کو دراصل قانون سازوں نے اس طرح بنایا تھا یا انکی منشاء اس طرح تھی لیکن ترمیم نہیں کر سکتی ۔ اسی طرح سپریم کورٹ نے تسلیم کر لیا کہ آئین میں ماتحت قانون سازی کے ذریعے بھی ترمیم ہو سکتی ہے اور حال ہی میں کچھ ججز نے اپنے اختلافی نوٹ تحریر فرمائے ہیں کہ سوموٹو یا 83(3) کے کیسز میں اپیل کا حق دینے کیلئے آئینی ترمیم لازم ہے۔ اگر ایسا ہے تو 63اے کے فیصلے کی کیا حیثیت ہے لیکن یہ تو عدالت عظمی ہی فیصلہ کر سکتی ہے آرٹیکل 51 اور 106 کی تشریح کس طرح کرنا ہے اور باقی کتنے آرٹیکل ہیں جو تشریح طلب ہیں اور مقننہ نے اتنی مشکل انگریزی کیوں لکھی کہ ہر آرٹیکل کی تشریح کیلئے سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان کی خدمات لینا پڑتی ہیں ؟ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ ہمارا آئین بھی مرزا غالب کے دیوان کی طرح ہے جسکی اب تک تیس تشریحات کی جا چکی ہیں لیکن جہاں تک میں نے پڑھا ہے ہر شارح نے تشریح اپنے حساب سے کی ہے اور مرزا غالب ان تیس لوگوں میں کہیں کھو گیا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button