کھوج بلاگ

کالم: لوگ کیوں لکھتے ہیں؟

تحریر: آصف علی درانی
دور جدید میں ٹیکنالوجی کی ترقی نے اگر ایک طرف انسان کے لیے مختلف کام آسان کرنے کے لیے مواقع پیدا کر دیئے ہیں۔ تو دوسری طرف اس نے نوجوان یا نئی نسل کو ایک خطرناک صورتحال سے دوچار کر دیا ہے۔ موجودہ دور میں جو نئی ٹیکنالوجی زیادہ تر نوجوان نسل استعمال کر رہے ہیں۔ مثلاً موبائل فون، انٹرنیٹ، میڈیا خاص طور پہ سوشل میڈیا تو آج سے کئی سالوں پہلے مطلب پرانے زمانے میں یہ ٹیکنالوجی نہیں تھی۔ پرانے زمانے میں کسی دور دراز کے دوستوں، رشتہ داروں سے بات چیت خط و کتابت کے ذریعے ہوتی تھی۔ اس طرح پرانے زمانے میں لوگ ملکی و غیر ملکی صورتحال سے اپنے آپ کو باخبر رکھنے کے لیے اخبار پڑھتے تھے۔ مختلف میگزین کا مطالعہ کرتے تھے۔ فلم دیکھنے کے لیے سینما ہال جاتے تھے۔ اس زمانے میں لوگ دفتری کاموں کے لیے زیادہ بندے رکھتے تھے۔ پرانے زمانے کے لوگوں کا ادب سے شوق بھی زیادہ تھا۔ اس زمانے میں لوگ شاعروں، ادیبوں، دانشوروں، کے تصانیف پڑھنے کے لیے بے تاب رہتے تھے۔ ان مصنفین کے کتابیں خریدتے تھے۔ علم و ادب سے محبت کرنے والے افراد کتابوں سے پیار کرتے تھے اور خوشی سے ان کے کتابوں کا مطالعہ کرتے تھے۔

پرانے وقتوں میں مصنفین لکھتے تھے اور خوشی سے لکھتے تھے وجہ یہ تھی کہ اس زمانے میں مصنف سے کوئی یہ نہ پوچھتا تھا۔ کہ تم کیوں لکھ رہے ہوں۔ اور مصنف کے ذہن میں بھی یہ سوال پیدا نہیں ہوتا تھا کہ میں کیوں لکھ رہا ہوں۔ کیونکہ عوام اور خاص طور پر علم ادب سے پیار کرنے والے اس مصنف کے کتاب کے شائع ہونے کا انتظار کرتے تھے۔ لیکن آہستہ آہستہ ٹیکنالوجی نے ترقی شروع کی۔ ٹیلی فون آ گیا میدان میں پھر کمپیوٹر آ گیا اور یہ نہ رکنے والا سلسلہ جاری رہا۔

جدید ٹیکنالوجی جس کو بعض لوگ نئی ٹیکنالوجی بولتے ہیں آہستہ آہستہ میدان میں آ گئی اور اس نے سب کچھ بدل کر دیا۔ اب آج کے دور میں ہر کسی کے ہاتھ میں موبائل فون ہے۔ اس ایک الیکٹرانک آلے نے سب کچھ چاہے خط و کتابت ہو یا علم و ادب سے محبت یا محنت مزدوری کے طریقے سب کچھ بدل کر دیا۔ اس ایک موبائل کے ذریعے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ بھی کر سکتے ہیں۔ آن لائن کاروبار بھی کر سکتے ہیں، گھر بیٹھے پیسے بھی کما سکتے ہیں۔ فلم ڈرامہ بھی دیکھ سکتے ہیں۔ آن لائن بینکنگ سسٹم کے ذریعے باری رقوم بھی بھیج و وصول سکتے ہیں۔

کتابیں، اخبارات، میگزین، ملکی و غیر ملکی خبریں بھی دیکھ سکتے ہیں اس کے علاوہ اس ایک الیکٹرانک آلے کے ذریعے انسان بہت کچھ کر سکتا ہے لیکن ان سب کے باوجود سائنس نے انسان کو بہت زیادہ سہولیات دیں کر انسان کو تنہا کر دیا۔ اس حوالے سے بعض دانشور کہتے ہیںکہ یہ کائنات جو ہم دیکھ رہے ہیں جس میں ہزاروں لاکھوں سیارے ستارے گردش کر رہے۔ یہ ہماری بیرونی دنیا ہے لیکن اس بیرونی دنیا سے بڑی کائنات ہمارے اندر ہے۔

سائنس نے انسان کو بہت سہولیات دے کر تنہا کر دیا، سماج سے اس کا رابطہ منقطع کر دیا آج کا انسان ایک بند کمرے میں بیٹھ کر سب کچھ اس کے ہاتھ میں ہوتا ہے مطلب موبائل فون کے ذریعے وہ سب کچھ کر سکتا ہے۔ کتابیں بھی پڑھ سکتا، مختلف ایپس کے ذریعے ایک دوسرے سے ویڈیو کال پہ بات بھی کر سکتا ہے لیکن وہ مزہ اور دل جمعی نہیں ہے جو سکون خط و کتابت میں ہوتا تھا۔ یا لائبریری میں بیٹھ کر کتابیں پڑھنے میں تھا۔ ان سب سہولیات کے باوجود آج کے دور کا انسان ذہنی دباؤ کا شکار ہے ، نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہے آج کے اس جدید دور میں ٹیکنالوجی تو دن بدن ترقی کررہا ہے لیکن اس کے باوجود بہت سے نفسیاتی بیماریاں بھی پیدا ہو رہی ہیں۔ بعض لوگ ٹیکنالوجی کی زیادہ استعمال کی وجہ سے مختلف ذہنی بیمار ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آج کے انسان کا سماج، معاشرے سے رشتہ بہت کمزور ہے پہلے پرانے زمانے میں لوگ حجروں میں بیٹھتے تھے۔ ایک دوسرے سے ملتے اپنا دکھ غم خوشی شریک کرتے تھے۔ اس سے انسان کو یہ فائدہ پہنچتا کہ انسان کے ذہن میں جو چیزیں ہوتی تھی۔ وہ ایک دوسرے سے گفتگو کرنے سے دور ہوجاتی تھی مطلب نکالنے کا راستہ ایک طریقہ موجود تھا اب کے دور میں وہ راستہ بند ہے۔ جس کی وجہ سے انسان ذہنی دباؤ، بیماریوں کا شکار ہیں۔ پرانے زمانے میں ایک مصنف لکھاری کھل کر لکھتا تھا اس کے ذہن میں یہ سوال پیدا نہیں ہوتا تھا کہ میں کیوں لکھ رہا ہوں؟

آج کے دور میں مصنف سے لوگ یہ سوالات پوچھتے ہیں تم کیوں لکھتے ہو؟ موجودہ دور میں مصنف کے ذہن میں بھی سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ میں کیوں لکھ رہا ہوں؟یا میں کس کے لیے لکھ رہا ہوں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ آج کے دور میں انسان کا ادب کے ساتھ رشتہ بہت کمزور ہے۔ ہر شخص سائنس کے پیچھے بھاگتا نظر آرہا ہے۔ آج کے دور میں بہت کم لوگ لٹریچر، علم ادب کو پڑھتے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے معاشرے، سماج میں ایک بگاڑ پیدا ہوا ہے۔ ہر شخص اس جدید ٹیکنالوجی میں ڈھارس تلاش کر رہا ہے مگر وہ اسے نہیں مل رہی کیونکہ ذہنی سکون کا تعلق دولت اور شہرت سے نہیں۔

محمد خان بھٹی کا اعترافی بیان، باپ بیٹے کو لینے کے دینے پڑ گئے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button