کھوج بلاگ

احسان کا بدلہ

تحریر: چوہدری اکرم کاشمیری
قرآن مقدس میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت کو اس حد تک بدلتا ہے جتنا کہ وہ قوم خود اپنی حالت کو بدلنا چاہتی ہے اس آیت کی روشنی میں دیکھا جائے تو ہمیں کہیں نظر نہیں آتا کہ ہمارے ارباب اقتدار و اختیار اس قوم کی حالت کو بدلنا چاہتے ہیں۔ ان کے دعوؤں اور کردار میں واضح فرق پایا جاتا ہے۔ آج کے دور کی مشکلیں تو ناقابل بیان ہو چکی ہیں تینوں سیاسی جماعتوں پی ٹی آئی ، مسلم لیگ ن اور پی پی پی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ تینوں جماعتوں نے عوام کو سخت مایوس کیا ہے۔ موجودہ پی ڈی ایم حکومت کو جب پتہ تھا کہ عمران خان نے اپنے ساڑھے تین سالوں میں عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ کیے گئے معاہدے پورے نہیں کیے اور آگے ایک مہنگائی کا طوفان آنے والا ہے اس کے باوجود شہباز شریف نے آصف زرداری اور جنرل ریٹائرڈ باجوہ کے جھانسے میں آکر اقتدار قبول کیا اور اس کا سارا ملبہ مسلم لیگ ن پر گرا اورمستقبل میں بھی مسلم لیگ ن کو اس غلطی کا بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑے گا۔ مریم نواز اور نواز شریف بار بار شہباز شریف کو منع کرتے رہے مگر وہ بضد تھا کہ اسٹیبلشمنٹ ہمارے ساتھ ہے ہمیں اقتدار میں جانا چاہیے پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ آئی ایم ایف نے اپنی مرضی کے معاہدے کے دوران ہماری ناک سے لکیریں بھی نکلوائیں اور آخر میں یہ کہہ دیا کہ ان معاہدوں کی حتمی منظور ی آئی ایم ایف ہیڈ کواٹر واشنگٹن سے ملنے کے بعد آپ کو بتایا جائے گا۔ اتنے میں آپ فلاں فلاں چیزوں کو مہنگا کریں اس وقت ملک کے حالات کشیدہ تر ہیں اور معیشت کو ایسی تباہ حالی کا سامنا ہے کہ خدانخواستہ پاکستان کو سنگین نقصان پہنچ سکتا ہے۔ دوسری طرف غریب عوام کو مہنگائی کا سامنا ہے۔ اگر ان حالات تک پہنچانے میں اسٹیبلشمنٹ کا بہت اہم کردار رہا ہے تو سیاستدانوں نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ سیاسی تجزیہ نگار یہ کہتے ہیں کہ 2018ء میں جب نواز شریف کو ایک سازش کے تحت اقتدار سے رخصت کیا گیا اس وقت بہترین معیشت تھی، جی ڈی پی 6 سے اوپر تھی، ہر چیز کنٹرول میں تھی عوام خوشحال تھی بجلی وافر مقدار میں پیدا کی گئی تھی ترقیاتی کام ہو رہے تھے ۔ جن قوتوں نے اس وقت نیگیٹو رول پلے کیا وہ اس سارے بحران کے ذمہ دار ہیں۔ اس کے بعد الیکشن ہوئے اور عمران خان کو ایک منصوبے کے تحت لایا گیا۔عمران خان کی حکومت کے شروع میں اس وقت کے وزیر خزانہ اسد عمر کو وزارت خزانہ سے ہٹا کر جنرل باجوہ نے بہت بڑی زیادتی کی ۔یہی وہ ٹرننگ پوائنٹ تھا جب حفیظ شیخ آیا اس نے معیشت کا بیڑا غرق کیا اور ساڑھے تین سال کے اندر سوائے سیاسی محاذ آرائی پکڑ دھکڑ کے کچھ نہیں کیا گیا۔ یہاں تک کہا گیا کہ بیرون ملک پڑے 200 ارب روپے پاکستانیوں کے واپس لائے جائیں گے اور 50 لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریاں دی جائیں گی ۔ وہ وعدہ ہی کیا جو وفا نہ ہو۔ ارشاد خداوندی ہے کہ احسان کا بدلہ احسان کے سوا بھی کچھ ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ جب آدمی پر کوئی احسان کرے تو جواباً اسے بھی اس پر احسان کرنا چاہیے ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی کے احسان کا بدلہ اللہ کے علاوہ کوئی اور دے سکتا ہے ۔ اگر احسان کا بدلہ اتنا آسان ہوتا تو حضرت علی کیوں فرماتے جس پر احسان کرو اس کے شر سے ڈرو۔ کیا اولاد والدین کے کسی ایک احسان کا بدلہ بھی اتار سکتی ہے ۔ کیا کوئی شاگر د اپنے استاد کا بدلہ اتار سکتا ہے۔ احسان کا بدلہ سوائے احسان کے کچھ نہیں ، قائد اعظم کے احسان کا بدلہ ہم نے یہ دیا کہ ان کے آخری ایام میں زیارت سے واپسی پر ایک خراب ایمبولینس ائیرپورٹ بھیج کر سکون و اطمینان سے انہیں مرنے بھی نہیں دیا۔ اسی طرح ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسے عظیم سائنسدان کو ہم نے دنیا بھر میں رسوا کیا اور ان کے جنازے کو گن سلوٹ دینا چاہیے تھا مگر ہمارے اس وقت کے حکمرانوں نے ان کے جنازے میں شرکت کرنا گوارا نہیں کیا۔اس کے ساتھ ساتھ ذوالفقار علی بھٹو اورپرویز مشرف جن کی اس ملک کے لئے بہت سی خدمات ہیں ان کے احسان کا بدلہ بھی ہم نے نہیں دیا جو دینا چاہیے تھا۔ مشرف کے لیے سینیٹ آف پاکستان میں دعا تک نہ کروائی گئی اور جو دس مرتبہ صدر بنانے کا اعلان کرتے تھے انہوں نے جنازے تک بھی شریک نہ ہوئے۔ اسی طرح میری نظر میں محسن پاکستان نواز شریف جس نے پاکستان میں موٹرویز کی بنیاد رکھی ۔ ملک بھر میں اپنے تین ادوار میں شاندار تعمیراتی کام کروائے اور کم وقت میں بجلی کے منصوبے مکمل کیے، زرعی اصلاحات اور ہر فیلڈ میں نمایاں کامیابیاں حاصل کیں۔ امریکہ اور عالمی طاقتوں کے بھرپور دباؤ کے باوجود پاکستان کو اٹامک پاور بنایا مگر ہم نے ان کی قدر بھی نہیں کی۔ جو لوگ اپنے محسنوں کی قدر نہیں کرتے ان کے ساتھ یہی کچھ ہوتا ہے جو آج کل ہمارے ملک کا ہو رہا ہے۔ آج ملک جس حال میں ہے اس کا ذمہ دار جنرل ریٹائرڈ باجوہ ، ثاقب نثار، جنرل ریٹائرڈ فیض حمیداور عمران خان ہیں ۔ ایک دم مسائل پیدا نہیں ہوتے یہ سب موجودہ بحران ایک دم نہیں آیا اس کی وجہ سابقہ ساڑھے تین سال خان حکومت کی ناقص پالیسوں کا کیا دھرا ہے۔ اگر سیاسی رواداری کا مظاہرہ کیا جاتا ۔ ایک دوسرے کو پانچ سال پورے کرنے دئیے جاتے۔ مثبت انداز میں حکومت /اپوزیشن کی جاتی تو آج اس طرح کے حالات نہ ہوتے۔ آج دنیا نیلسن منڈیلا کو اس لیے یاد کرتی ہے کہ انہوں نے 27 سال جیل کی کال کوٹھری میں گزارنے کے بعد ان لوگوں کو بھی معاف کیا جو ان کو صبح شام سزائیں دیتے تھے۔ لیڈر اگلے سو سال کا سوچتا ہے اور ہمیشہ اپنے ملک کے مستقبل کا سوچتا ہے جب کہ سیاستدان اگلے الیکشن کا سوچتا ہے۔ کاش ہمیں بھی کوئی ایسا لیڈر ملتا تو آج یہ ملک بہت آگے ہوتا۔ پنجاب ، کے پی کے ، گلگت بلتستان اور کشمیر میں حکومت ہونے کے باوجود جس طرح کا رویہ عمران خان نے حکومت سے نکلنے کے بعد روا رکھا اس کی کسی بھی مہذب معاشرے میں اجازت نہیں دی جا سکتی۔ عمران خان ایسے الیکشن چاہتے ہیں جن میں وہ جیتیں اگر وہ ہارتے ہیں تو ان کی نظر میں اس الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے اب بھی خود عدالتوں سے ضمانتیں لے رہے ہیں اور کارکنوں کو جیل بھرو تحریک کا حصہ بنا رہے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ نے بھی اس وقت یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ نیوٹرل رہنا چاہتی ہے جو غلطیاں اور ناجائز سپورٹ عمران پروجیکٹ لانچ کرنے اور کامیاب کرنے کی گئی ان کا مداوا کیا جائے گا۔ تمام سیاسی جماعتوں کو لیول پلینگ فیلڈ دیا جائے گا۔ مگر اب عمران خان سمیت کسی کو بھی فاؤل پلے کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ اپنی سیاسی پوائنٹ سکورنگ سے معیشت کو نقصان پہنچائے۔ عمران خان کو جب اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل تھی تو 126 دن کا اسلام آباد میں دھرنا دیا اور جب اسٹیبلشمنٹ نے مدد چھوڑ دی تو فیض آباد سے آگے تک نہ آسکے۔ اب اسٹیبلشمنٹ کسی صورت عمران خان پر اعتماد نہیں کر رہی ہے۔ لہٰذا تحریک انصاف کا مستقبل تاریک ہی سمجھیں ۔اگر سیاستدانوں نے ذمہ داری اور سیاسی میچورٹی کا مظاہرہ نہ کیا تو حالات پوائنٹ آف نو ریٹرن کی طرف جا سکتے ہیں اس کے ذمہ دار سارے سیاستدان ہوں گے۔پاکستان اللہ کریم کا عطیہ ہے اس ملک کو بنانے کے لئے بڑی قربانیاں دی گئیں ہیں ۔آج کے سیاستدانوں کو کیا معلوم ہے کہ بٹوارے کے وقت کس طرح مسلمان شہید کیے گئے کس طرح بچوں اور بڑوں کا قتل عام کیا گیا اور کس طرح خواتین کی عزتیں پامال کی گئیں ، کتنی جوان لڑکیوں کو ہندوؤں اور سکھوں نے اغواہ کر کے ان سے زبردستی شادیاں کیں اور ان کو مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا گیا۔ کتنے بچے یتیم ، بے شناخت اور لاوارث ہو گئے تھے۔ آج چند لوگ عیاشیاں کرتے اور پاکستان کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں۔ یہ ملک اللہ پاک کی طرف سے عطیہ اور نعمت ہے ۔ اس ملک کی حفاظت بھی اللہ ہی کرے گااور یہ مشکل وقت بھی گزر جائے گااور انشاء اللہ اچھا وقت آئے گا۔

ثاقب نثار کی کون سی تازہ ترین واردات پکڑے گی؟ بڑی خبر آگئی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button