صحت

ڈائٹ مشروبات کا میٹھا کونسے جان لیوا مرض کا باعث بنتا ہے؟ حیران کن تحقیق

ڈائٹ مشروبات میں استعمال ہونے والا میٹھا غیرمحفوظ ہے اور ممکنہ طور پر سرطان کی ایک وجہ ہو سکتا ہے: ڈبلیو ایچ او کی تحقیق

فرانس (ویب ڈیسک) ڈائٹ مشروبات کا میٹھا کونسے جان لیوا مرض کا باعث بنتا ہے؟ اس حوالہ سے ڈبلیو ایچ او کی حیران کن تحقیق منظر عام پر آگئی ہے۔

انٹرنیشنل میڈیا کے مطابق ڈبلیو ایچ او کے سرطان پر تحقیق کے خصوصی ادارے انٹرنیشنل ایجنسی فار ریسرچ آن کینسر کی جانب سے سامنے آنے والے بیان میں کہا گیا کہ ڈائٹ مشروبات میں استعمال ہونے والا میٹھا غیرمحفوظ ہے اور ممکنہ طور پر سرطان کی ایک وجہ ہو سکتا ہے، جب کہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک کا کہنا ہے کہ یہ میٹھا محدود مقدار میں استعمال کیا جائے تو محفوظ ہے۔ فرانس کے شہر لیوں میں قائم کینسر پر تحقیق کے ادارے کا کہنا ہے کہ یہ میٹھا سرطان کا ممکنہ باعث ہے اور اس کے لیے اس ادارے نے ‘شاید یا امکانا جیسے الفاظ استعمال کیے ہیں۔یوں ایسپارٹیم نامی مواد کوکینسر کی ممکنہ موجب سمجھی جانے والی تین سو سے زائد دیگر اشیا کی فہرست میں شامل کر دیا گیا۔ ان چیزوں میں ایلوویرا کا رس اور ایشیائی طریقے سے بنائے گئے سبزیوں کے اچار بھی شامل ہیں تاہم اس میٹھے کے استعمال سے متعلق ضوابط فی الحال تبدیل نہیں کیے گئے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے صحت کے غذائیت سے متعلقہ امور کے ڈائریکٹر، ڈاکٹر فرانچیسکو برانکا کے مطابق، ”ہم نے فی الحال صارفین کو ایسپارٹیم کا استعمال ترک کرنے کی ہدایت نہیں کی۔ ہم فقط یہ کہہ رہے ہیں کہ اس کا محدود استعمال کر دیں۔

واضح رہے کہ ایسپارٹیم کم کیلوریز کا حامل ایک میٹھا مادہ ہے، جو عالمی سطح پر مصنوعی میٹھے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور یہ چینی کے مقابلے میں دو سو گنا زیادہ میٹھا ہوتا ہے۔ یہ مادہ دنیا بھر میں ڈائٹ مشروبات میں استعمال کیا جاتا ہے۔ ایسپارٹیم کے استعمال کی منظوری سن 1974 میں امریکہ کی فوڈ اینڈ ڈرگ اتھارٹی نے دی تھی اور پچاس ملی گرام فی کلوگرام انسانی وزن کے برابر اس کے استعمال کو قابل قبول قرار دیا گیا تھا۔ امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کے مطابق ساٹھ کلوگرام وزن کا کوئی شخص ایسپارٹیم کے پچھہتر پیکٹ استعمال کر سکتا ہے۔ سن 1981 میں اقوام متحدہ نے اس مادے کی سیفٹی پر نظرثانی کرتے ہوئے اس کی قابل قبول حد چالیس ملی گرام فی کلوگرام مقرر کی تھی۔ ڈبلیو ایچ او کی کینسر پر تحقیق کی ایجنسی IARC نے رواں برس جون میں ایسپارٹیم کے سرطان کا موجب بننے کے امکانات پر تفتیش کا آغاز کیا تھا۔ اس ادارے کے مطابق انسانوں اور جانوروں پر مطالعے سے فی الحال ایسے محدود شواہد ملے ہیں، جن کی رو سے ایسپارٹیم ایک ‘کارسینوجینک مادہ ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button