انٹرنیشنل

معاشی بحران، امریکا میں انتخابات کا انعقاد خطرناک مراحل میں داخل ہوگیا

اس الیکشن میں مقابلہ بہت سخت 'جیت انتہائی کم ووٹوں فرق سے ' ایسے سخت مقابلوں میں وہ افراد جنہوں نے پہلے فیصلہ نہیں کیا ہوتا، آخر میں یہ طے کرتے ہیں کہ صدر کون بنے گا

امریکا (مانیٹرنگ ڈیسک) امریکا میں بڑھتے ہوئے معاشی بحران کے باعث وہاں پر ہونے والے صدارتی انتخابات کا انعقاد خطرناک مراحل میں داخل ہو گیا ہے اب کیا ہوگا ۔

انٹرنیشنل میڈیا کے مطابق 1992ء کے امریکی صدارتی انتخاب کا یہ بار بار دہرایا جانے والا جملہ سیاسی امور کے ایک مشیر جیمز کارویل سے منسوب ہے جنہوں نے ووٹ دینے کے محرکات کی وضاحت کی تھی۔ اس سال نومبرکے صدارتی انتخاب میں جب صدر جو بائیڈن اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ایک بار پھر مقابلہ ہوگا تو معیشت سے متعلق تشویش بدستور ووٹروں کے لیے مرکزی اہمیت کی حامل ہو گی لیکن ہو سکتا ہے کہ ان ریاستوں میں جہاں لوگوں نے یہ ذہن نہیں بنایا کہ وہ کس کو ووٹ دیں گے، اور جنہیں سوئنگ سٹیٹس کہا جاتا ہے، غزہ اور یوکرین میں ہونے والی جنگیں، ووٹروں پر کافی اثر انداز ہو سکتی ہیں۔

لوزیانا کے شہر نیو آرلینز میں واقع یونیورسٹی آف ڈلرڈ میں اربن اسٹڈیز اور پبلک پالیسی کے پروفیسر رابرٹ کولنز کا کہنا ہے کہ اندازہ یہ ہے کہ اس الیکشن میں مقابلہ بہت سخت ہو گا اور جیت انتہائی کم ووٹوں فرق سے ہو گی۔ ایسے سخت مقابلوں میں وہ افراد جنہوں نے پہلے فیصلہ نہیں کیا ہوتا، آخر میں یہ طے کرتے ہیں کہ صدر کون بنے گا۔ میسا چوسٹس کی میوزک ٹیچر لاری اسکلار نے کہا کہ یہ الیکشن دوسرے انتخابات سے مختلف لگتا ہے۔ اور اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ غزہ کی جنگ نوجوان ڈیموکریٹس کے لیے ایک ایسا اہم موڑ ہے جس میں ا ن کی سوچ اچانک بدل سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ تیسری پارٹی کے امیدوار کو سپورٹ کرنے کا فیصلہ بھی کر سکتے ہیں اور سرے سے کسی کو بھی ووٹ نہ دینے کا فیصلہ بھی کر سکتے ہیں۔ میرے خیال میں ایسے بہت سے نوجوان لبرل ووٹرز ہیں جو نومبر میں بائیڈن کو ووٹ نہیں دیں گے۔ اور مجھے پریشانی ہے کہ اس کا مطلب ٹرمپ کی جیت ہو سکتی ہے

برڈی نے کہا کہ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ اس موسم خزاں میں میرا ووٹ نسل کشی کے حق میں جائے ۔وہ نسلی تطہیر کے جاری عمل میں شامل ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ٹرمپ کو ووٹ دیں گی۔ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ میرے خیال میں، ایک کاروباری کے طور پر، ٹرمپ کی صدارت معیشت کے لیے اچھی تھی۔ لیکن میں کسی ایسے شخص کی حمایت نہیں کر سکتی جس کی اسرائیل کے لیے اس طرح کی غیر متزلزل حمایت اور وفاداری ہو۔ میں تیسرے فریق کو ووٹ دینے پر غور کر رہی ہوں، لیکن یقین سے کچھ نہین کہا جا سکتا۔اس سال کے اوائل میں ہارورڈ کے کینیڈی سکول آف گورنمنٹ کے ایک سروے سے پتہ چلا ہے کہ 18 سے 29 سال کی عمروں کے امریکی نوجوان غزہ میں مستقل جنگ بندی کے زبردست حامی ہیں۔ شریوپورٹ، لوزیانا کی ایک گریجویٹ طالبہ برکلین برڈی کا کہنا ہے کہ انہوں نے 2020 میں بائیڈن کو ووٹ دیا تھا لیکن 2024 میں انہیں ووٹ نہیں دیں گی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button