انٹرنیشنل

فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی ، اسرائیلی حکومت اور فوج میں شدید اختلافات

اسرائیلی حکومت اور فوج کے درمیان جنوبی غزہ میں مجوزہ فلسطینی انسانی شہر کے منصوبے پر سنگین اختلافات سامنے آ گئے ہیں

تل ابیب(ویب ڈیسک)فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی ، اسرائیلی حکومت اور فوج میں شدید اختلافات،رپورٹس کے مطابق اسرائیلی حکومت اور فوج کے درمیان جنوبی غزہ میں مجوزہ فلسطینی انسانی شہر کے منصوبے پر سنگین اختلافات سامنے آ گئے ہیں۔ منصوبے پر نہ صرف عالمی سطح پر تنقید ہو رہی ہے بلکہ اندرونِ ملک بھی فوج اور اعلی سیاسی قیادت کے درمیان کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔یہ منصوبہ اسرائیلی وزیر دفاع یسرائیل کاٹز کی جانب سے پیش کیا گیا ہے، جس کے تحت غزہ کے جنوبی شہر رفح اور مصری سرحد کے درمیان واقع علاقے میں ایک بڑا کیمپ قائم کیا جانا ہے، جہاں ابتدائی طور پر 6 لاکھ فلسطینیوں کو منتقل کرنے کی تجویز ہے، اور بعد ازاں غزہ کی پوری آبادی کو وہاں منتقل کیا جائے گا۔وزیر دفاع کے مطابق اس علاقے سے لوگوں کو صرف بیرونِ ملک جانے کے لیے نکلنے کی اجازت دی جائے گی۔

اس منصوبے پر سب سے سخت ردعمل سابق اسرائیلی وزیراعظم ایہود اولمرٹ کی جانب سے آیا ہے، جنہوں نے اس کیمپ کو نازی دور کے کنسنٹریشن کیمپ سے تشبیہ دی۔ اولمرٹ نے خبردار کیا کہ اگر فلسطینیوں کو زبردستی یہاں منتقل کیا گیا تو یہ عمل نسلی تطہیر کے مترادف ہو گا۔اس بیان پر اسرائیلی حکومت میں شدید غصہ پایا جاتا ہے۔ وزیر ورثہ امیخائی ایلیاہو نے اولمرٹ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ جیل کو پہلے ہی جانتے ہیں۔ شاید یہ وقت ہے کہ انہیں دوبارہ بند کیا جائے تاکہ وہ دنیا میں نفرت اور یہود دشمنی نہ پھیلائیں۔اسرائیلی فوج کے سربراہ ایال زامیر نے سیکیورٹی کابینہ کے حالیہ اجلاس میں منصوبے پر کھلے عام مخالفت کی۔ ان کا مقف ہے کہ یہ منصوبہ فوجی وسائل کو جنگی مقاصد سے ہٹا دے گا اور یرغمالیوں کی بازیابی کی کوششوں کو متاثر کرے گا۔

زامیر کا کہنا تھا کہ شہریوں کو مرکوز کرنا نہ صرف قانونی و اخلاقی طور پر متنازع ہے بلکہ یہ جنگ کے اہداف کا بھی حصہ نہیں تھا۔اسرائیلی وزارت خزانہ نے بھی کیمپ منصوبے پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ اس پر سالانہ 15 ارب شیکل (تقریبا 3.3 ارب پانڈ) خرچ ہوں گے، جو قومی بجٹ پر شدید بوجھ ڈالے گا۔ رپورٹ کے مطابق یہ رقم اسکولوں، اسپتالوں اور فلاحی منصوبوں سے ہٹا کر صرف کی جائے گی۔Ynet کی رپورٹ کے مطابق کیمپ کی تعمیر پر 2.7 سے 4 ارب ڈالر تک لاگت آ سکتی ہے، جس کا بیشتر حصہ اسرائیل کو خود برداشت کرنا ہو گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button