پاکستان

اسٹیبلشمنٹ،عدلیہ محاذ آرائی ،سب کی ہارہوگی ،صحافی انصارعباسی نےاپنےخدشات کا اظہارکردیا

انصارعباسی نےکالم میں مزید لکھا کہ ماضی میں جج، جرنیل اورسیاست دان کیا کیا کچھ کرتےرہے وہ سب کے سامنے ہےجس سے ہمیں بحیثیت قوم سبق سیکھ کرآگےبڑھنا چاہیے

اسلام آباد( ویب ڈیسک)اسٹیبلشمنٹ،عدلیہ محاذ آرائی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ،صحافی انصارعباسی نےاپنےخدشات کا اظہارکردیا ۔سینئرصحافی اور تجزیہ کارانصار عباسی نے ایک قومی روزنامہ میں لکھے گئے اپنےکالم میں شدیدترین خدشات کا اظہارکردیا۔انصارعباسی نےلکھا کہ اسٹیبلشمنٹ اورعدلیہ آمنے سامنے کھڑی نظرآرہی ہے اگریہ سلسلہ نہ رکا اورایسے ہی چلتا رہا تو دونوں اہم ترین اداروں کےدرمیان یہ لڑائی بڑھ کر کسی بڑے بحران کا سبب بن سکتی ہے ۔ ماضی میں جج، جرنیل اور سیاست دان کیا کیا کچھ کرتے رہے وہ سب کے سامنے ہے جس سے ہمیں بحیثیت قوم سبق سیکھ کر آگے ایسے انداز میں بڑھنا چاہیے۔سینئر صحافی و تجزیہ کار  انصار عباسی نےاپنے کالم "اس لڑائی میں سب کی ہار ہے!” میں تہلکہ خیزانکشافات کردیئے۔

کالم میں انہوں نے لکھا کہ گزشتہ چند ہفتوں سے اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ آمنے سامنے کھڑی نظرآرہی ہے جس سے یہ خوف بہت سے ذہنوں میں پیدا ہورہاہےکہ اگر یہ سلسلہ نہ رکا اورایسے ہی چلتا رہا تو دونوں اہم ترین اداروں کے درمیان یہ لڑائی بڑھ کر کسی بڑے بحران کا سبب بن سکتی ہے۔ پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال ملک میں کسی نئےاوربڑے بحران کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ ایسےوقت میں جب معاشی اشاریے کچھ بہتری کے آثاردکھانا شروع کر رہے ہیں اور پاکستان کو معاشی چیلنجز سے نبٹنے کیلئے اہم اصلاحات کرنے کیلئے سسٹم کو ایک استحکام کی ضرورت ہے، سیکیورٹی وفوجی اسٹیبلشمنٹ اورعدلیہ کےدرمیان موجود تناؤکا بڑھنا کسی کی جیت نہیں ہو سکتا بلکہ اس میں سب کی ہارہوگی۔ اس صورتحال کا سب کو ادراک ہونا چاہیے تاکہ اس تناؤ اور لڑائی کو بڑھنے سے روکا جائے۔

انصارعباسی نے لکھا کہ اگرایک طرف عدلیہ کےمعاملات میں ایجنسیوں کی مداخلت کا روکا جانا ضروری ہےتو دوسری طرف ججوں کو بھی دفاع اورسیکیورٹی سےجڑے معاملات پرفوج اورسیکورٹی ایجنسیوں کے تحفظات کو سمجھنا چاہیے۔ مثال کےطور پر یہ ایجنسیوں کی ذمہ داری ہےکہ ملک کے دفاع، سیکیورٹی اور دہشتگردی جیسے معاملات میں فون ٹیپنگ جیسی سہولتوں سے مدد لی جائے لیکن یہ غلط ہوگا کہ کسی سیاستدان ، جج یا صحافی کے فون ٹیپ کر کے اُن کو سیاسی مقاصد کےحصول یا بلیک میلنگ کیلئےلیک کیا جائے۔ جہاں غلط ہو رہا ہے اُسےعدلیہ کو ضرور روکنا چاہیےلیکن اگر ایجنسیاں یہ کہیں کہ فون ٹیپنگ سے متعلق کچھ حساس معاملات ہیں جن پرکھلی عدالت میں بات کرنے سے سیکیورٹی compromise ہوسکتی ہے جس کیلئے متعلقہ جج کے چیمبر میں بات کی جانی چاہیے توایسی درخواست پر عدلیہ کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔

انصارعباسی نےکالم میں مزید لکھا کہ ماضی میں جج، جرنیل اور سیاست دان کیا کیا کچھ کرتے رہے وہ سب کے سامنے ہے جس سے ہمیں بحیثیت قوم سبق سیکھ کر آگے ایسے انداز میں بڑھنا چاہیے کہ ہر ادارہ اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام کرے۔ فوج اور ایجنسیاں دفاع، سیکیورٹی اور دہشتگردی جیسے اہم ترین معاملات پر اپنی توجہ مرکوز رکھیں، عدلیہ عوام کو سستے اور جلد انصاف کی فراہمی کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے میں رات دن ایک کرے، سیاستدان اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ میں جائز ناجائز سہارے تلاش کرنےکے بجائے اپنی سیاست کا مرکز ملک اور عوام کی خدمت کو بنائے رکھیں۔ اسی میں سب کا فائدہ اور ہر کسی کی عزت ہو گی۔ ہمیں مضبوط فوج، چوکس پر غیر سیاسی ایجنسیاں، آزاد عدلیہ اور ایسی پارلیمنٹ اور سیاسی حکومت چاہیے جو آئین پاکستان کے مطابق ملک و قوم کی خدمت میں دن رات ایک کر دے۔ لیکن سب کچھ ایک خواب کی طرح نظر آتا ہے۔ معاملات ہیں کہ سلجھنے کا نام نہیں لے رہے،جو ہم چاہتے ہیں اور جس جس ادارے سے جو امیدیں وابستہ ہیں اُس کا الٹ ہی ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button