پاکستان

اوپروالےجان لڑا رہےہیں کہ ملک معاشی مشکلا ت سے نکل آئے،سہیل وڑائچ نے حقائق سامنے لے آئے

پچھلے پچاس ساٹھ سال سے اوپر والے حکومتی معاملات میں سرعام مداخلت کو اپنا حق سمجھتے تھے، آج کے اوپر والے ماضی کی اس روایت سے چھٹکارا حاصل کرکے سیاسی حکومتوں کو فری ہینڈ دینا چاہتے ہیں

لاہور(ویب ڈیسک)اوپروالےجان لڑا رہےہیں کہ ملک معاشی مشکلا ت سے نکل آئے،سہیل وڑائچ نے حقائق سامنے لے آئے، سینئرصحافی اورتجزیہ کارسہیل وڑائچ نےایک قومی روزنامہ میں لکھےگئےاپنےکالم میں کہا ہے کہ بہت ہی بڑا کنفیوژن ہے، جیل والےاوراوپروالےدونوں متضاد کونوں پرکھڑے ہیں۔مصالحت، مفاہمت اور مذاکرات کی ہر آوازصد ابصحرا ثابت ہو رہی ہے، دونوں اپنے اپنے دلائل، تاثرات اور نتیجوں پر سخت موقف رکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے ایک سیاسی ڈیڈ لاک ہے جو حل ہونے میں نہیں آ رہا۔

جیل والوں کو ہرطرف تخریب ہی تخریب نظر آتی ہے۔ ان کے خیال میں جو کچھ ان کی جماعت کے ساتھ ہوا ہے ایسا پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا، ان کا تاثر ہے کہ پوری تاریخ میں بدترین دھاندلی پچھلے الیکشن میں ہوئی اور ان کا مینڈیٹ چرا لیا گیا، وہ سمجھتے ہیں جس قدر جیلیں، مقدمات اور مشکلات انہوں نے جھیلی ہیں ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ جیل والے سمجھتے ہیں کہ اوپر والوں سے مصالحت ہو ہی نہیں سکتی جب تک وہ اپنے کئے کا مداوا نہیں کرتے۔

دوسری طرف اوپر والوں کو ہر طرف تعمیر ہی تعمیر نظر آتی ہے، روپیہ مستحکم ہو رہا ہے ،اسٹاک مارکیٹ چڑھ رہی ہے، زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ رہے ہیں، برآمدات میں اضافہ ہوا ہے، عرب ممالک سے سرمایہ کاری کی توقعات ہیں، چین سے سی پیک دوئم شروع ہونے والا ہے،مستقبل میں بہتری کی خوش خبریاں ہیں ،مہنگائی بھی کم ہور ہی ہے۔

جیل والے سیاسی باتیں کر رہے ہیں اور اوپر والے معاشی اعداد و شمار بیان کر رہے ہیں،تاہم نہ جیل والے پورے سچے ہیں اور نہ اوپر والے۔ جیل والے بھول جاتے ہیں کہ اس ملک کے دو وزیراعظم قتل ہو چکے ہیں، ایک جوڈیشل مرڈر کا شکار ہو ئے، ضیاء دور میں سینکڑوں کارکنوںکو کوڑے مارے گئے، درجنوں کو پھانسیاں ہوئیں ۔سندھ میں جہازوںسے فائرنگ کرکے مظاہرین کو مارا گیا اور یہ جدوجہد پورے گیارہ سال چلی۔ تحریک انصاف کے ساتھ ظلم اور زیادتیاں ہوئی ہیں مگر وہ اس شمار میں پہلے نہیں، خدا کرےکہ آخری ہوں۔ اوپر والے جو معاشی اعداد و شمار بتاتے ہیں وہ درست بھی ہوں تو 23کروڑ کے مقروض ملک کو چلانے کیلئے ہماری معیشت ہمارا ساتھ دیتی ہوئی نظر نہیں آتی۔

سہیل وڑائچ مزید لکھتے ہیں کہ اس ملاکھڑے میں سب سے دلچسپ اوپر والوں کا بیانیہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ آج کے اوپر والے ماضی کے اوپر والوں سے یکسر مختلف ہیں۔ پچھلے پچاس ساٹھ سال سے اوپر والے حکومتی معاملات میں سرعام مداخلت کو اپنا حق سمجھتے تھے، آج کے اوپر والے ماضی کی اس روایت سے چھٹکارا حاصل کرکے سیاسی حکومتوں کو فری ہینڈ دینا چاہتے ہیں، معیشت کو چلانے میں ماضی کے اوپر والے روڑے اٹکاتے تھے آج کے اوپر والے اس حوالے سے حکومت کی مدد کیلئے خودمیدان عمل میں کُودے ہوئے ہیں،ایس آئی ایف سی ہو یا بیرون ملک کے دورے، اوپر والے جان لڑا رہے ہیں کہ ملک معاشی مشکلا ت سے نکل آئے۔ پہلی دفعہ ایسے اوپر والے آئے ہیں جو خود پیچھے رہتے ہیں اور دوسروں کو آگے کرتے ہیں، خود نہ میڈیا پر آتے ہیں نہ تصویریں کھنچواتے ہیں اور نہ ہی خود لیڈر بننے کی کوشش میں ہیں لیکن ان اچھے ارادوں اور نیتوں کی کئی لوگوں کو سمجھ نہیں آ رہی وہ اتنی بڑی تبدیلی کو خوش آمدید کہنے کی بجائے بے جا مخالفت کر رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ایسے نرم مزاج اور شائستہ اوپر والے پچھلے پچاس سال سے نہیں آئے اور شاید ایسے اوپر والے پھر نہ ملیں۔ اوپر والوں کا شکوہ ہے کہ ہم پہلی بار چیزیں ٹھیک کرنا چاہ رہے ہیں ،ماضی کی غلطیوں کا مداوا کر رہے ہیں، سپریم کورٹ نے جنرل مشرف کو علامتی سزا دی، اسی طرح بھٹو کی پھانسی غلط قرار دی،فیض آباد دھرنا انکوائری چل رہی ہے آج کے اوپر والے نہ صرف اس پر خاموش ہیں بلکہ چاہتے ہیں کہ ماضی میں جو غلط ہواوہ اب درست ہوجائے۔ لیکن اس سوچ کا مطلب یہ بھی نہیں کہ کسی کواجازت دے دی جائے کہ وہ ریاست کےگریبان میں ہاتھ ڈالے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button