پاکستان

ایف بی آر افسران کے اثاثوں کی چھان بین شروع، چیئرمین سینیٹ نے معاملہ کمیٹی کے سپرد کر دیا

ہمارے اثاثے کو ظاہر کئے جاتے ہیں ان کے اثاثے کیوں نہیں لائے جاتے ہیں ،یہ اثاثے پارلیمنٹ نے مانگے ہیں ،چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی

اسلام آباد(نیوز رپورٹر، آن لائن) چیئرمین سینیٹ نے ایف بی آر کے بڑے بڑے افسران کے اثاثوں کی تفصیلات فراہم کرنے کے معاملے کو کمیٹی کے سپرد کردیا اس موقع پر سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہاکہ ایف بی آر کا ادارہ بہت بڑا فراڈ بن چکا ہے اگر یہ ادارہ درست ہوجائے تو پورے ملک کے قرضے ختم ہوسکتے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق سینیٹ اجلاس کے وفقہ سوالات کے دوران سینیٹر مشتاق احمد خان نے ضمنی سوال کرتے ہوئے کہاکہ ایف بی آر کے افسران کے اثاثوں کی تفصیلات فراہم نہیں کی جارہی ہیں انہوں نے کہاکہ ایف بی آر اس وقت فراڈ بیورو بن چکا ہے اور اس میں اربوں روپے کا فراڈ ہوتا ہے اگر ایک ایف بی آر ٹھیک ہوجائے تو پورے ملک کے قرضے ختم ہوسکتے ہیں انہوںنے کہاکہ اس پارلیمنٹ میں ایف بی آر کے افسران کے اثاثوں کا سامنے لایا جائے جس پر وزیر مملکت برائے قانون سینیٹر شہادت اعوان نے کہاکہ یہ پابندی حکومت کی جانب سے ہے اس وقت چیرمین سینیٹ نے کہاکہ ہمارے اثاثے کو ظاہر کئے جاتے ہیں ان کے اثاثے کیوں نہیں لائے جاتے ہیں انہوںنے کہاکہ یہ اثاثے پارلیمنٹ نے مانگے ہیں لہذا اس ایوان کو یہ اثاثے دئیے جائیں جس پر وزیر مملکت نے کہاکہ اگر کسی ایک آفیسر کے اثاثے مانگے جائیں تو وہ دے سکتے ہیں تاہم سب افسران کے اثاثے ظاہر نہیں کئے جاسکتے ہیں سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے کہاکہ کیا پارلیمنٹ تھرڈ پارٹی کی حیثیت رکھتی ہے انہوںنے کہاکہ یہ قانون 2016میں بنایا گیا تھا اس قانون کو ختم کیا جائے اور نئی قانون سازی کی جائے رانا مقبول احمد نے کہاکہ ایف بی آر کے اعلیٰ افسران عوام کو نچوڑتے ہیں ایف بی آر کے افسران دیکھ کر بندہ حیران رہ جاتا ہے اس حوالے سے اگر قانون سازی کی ضرورت ہو تو کی جائے اس موقع پر چیرمین سینیٹ نے معاملہ کمیٹی کے سپرد کردیااجلاس کے دوران سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہاکہ وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں 7محکمے سربراہوں کے بغیر ہیں اس وقت پی ایس کیو سی اے کرپشن کا گڑھ بن چکا ہے۔

انہوں نے کہاکہ ابھی تک وفاقی وزیر کی شکل نہیں دیکھی ہے جس پر وزیر مملکت برائے قانون سینیٹر شہادت اعوان نے کہاکہ ڈائریکٹر جنرل پی ایس کیو سی اے کا سربراہ گذشتہ10سالوں سے تعینات نہیں ہوسکا ہے اس حوالے سے انٹریوز ہوچکے ہیں اور جلد ہی تعیناتی ہوگی انہوں نے کہاکہ سی ڈبلیو ایچ آر کا محکمہ بھی گذشتہ 10سالوں سے سربراہ کے بغیر ہے تاہم اس کی وجہ ادارے کی منتقلی ہے انہوں نے کہاکہ وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے دیگر اداروں میں بھی سربراہوں کی تعیناتی کی جارہی ہے چیرمین سینیٹ نے معاملہ کمیٹی کے سپرد کردیاسینیٹر بہرہ مند تنگی نے ضمنی سوال کرتے ہوئے کہا کہ گذشتہ5سالوں کے دوران جعلی اینوائسز کی بنیاد پر صرف دو بڑی دکانوں کو سیل کیا گیا ہے یہ صورتحال درست نہیں ہے جس پر وزیر مملکت سینیٹر شہادت اعوان نے کہاکہ لاہور اور اسلام آباد میں دو آوٹ لیٹس کو بغیر تصدیق اینوائس کی بنیاد پر سیل کیا گیا ہے انہوںنے کہاکہ ایف بی آر بہتر انداز میں کام کر رہی ہے سینیٹر محمد ہمایون مہمند نے کہاکہ ریڑھی اور چھابڑی والوں کے ساتھ بڑے بڑے سٹورز کو ملانا درست نہیں ہے اس وقت ملک مشکل صورتحال کا شکار ہے اس وقت ریٹیل سیکٹر کا ٹیکس نیٹ میں حصہ بہت کم ہے اس کی کیا وجہ ہے جس پر وزیر مملکت برائے قانون نے کہاکہ کاروباری طبقے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے سینیٹر تاج حیدر نے کہاکہ پوری وفاقی کابینہ کا بوجھ ایک وزیر مملکت پر ڈالا گیا ہے اس کا نوٹس لینا چاہیے سینیٹر بہرہ مند تنگی نے کہاکہ ملک میں بننے والی گاڑیوں کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں اور کوالٹی ناقص ہوچکی ہے اس حوالے سے حکومت کیا اقدامات اٹھا رہی ہے جس پر وزیر مملکت برائے قانون نے کہاکہ 60فیصد گاڑیوں کے پرزے منگوائے جاتے ہیں اور ملک میں اسمبلی کی جاتی ہیں انہوں نے کہاکہ جو گاڑیاں باہر سے آتی ہیں ان کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا ہے۔

سینیٹر جام مہتاب ڈھر نے کہاکہ گاڑیوں کی قیمتوں کے کنٹرول کیلئے ملک میں کوئی اتھارٹی نہیں ہے اگر پرزے باہر سے منگوا کر ملک میں مہنگی بیچنی ہے تو اس سے بہتر ہے کہ باہر سے پرانی گاڑیاں منگوائی جائے انہوںنے کہاکہ اس وقت ٹریکٹر اور موٹر سائیکل کی قیمتوں میں بھی بہت زیادہ اضافہ ہوگیا ہے جس پر وزیر مملکت برائے قانون نے کہاکہ اگر حکومت کاروبار کو ریگولیٹ کرنا شروع کرے تو اس سے مسائل پیدا ہونگے انہوںنے کہاکہ حکومت صرف پالیسی دیتی ہے جبکہ ریٹس کمپنیاں خود فکس کرتی ہیں انہوںنے کہاکہ جب تک ملک میں مقابلے کی فضا نہ ہو اس وقت تک قیمتیں کم نہیں ہوسکتی ہیں انہوں نے کہاکہ حکومتیں آتی جاتی ہیں سینیٹر علی ظفر نے کہاکہ حکومت ریگولیٹر کے طور پر اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر رہی ہے اس حوالے سے ای ڈی بی کے نام سے ایک بورڈ بنایا گیا ہے تاہم اس سلسلے میں کوئی قانون سازی نہیں ہوئی ہے جس پر وزیر مملکت برائے قانون نے کہاکہ اس حوالے سے قانون سازی ضروری ہے سینیٹر سرفراز بگٹی نے ضمنی سوال کرتے ہوئے کہاکہ نیشنل بنک کے اشتہار میں پورے بلوچستان سے صرف ایک اسامی جبکہ خیبر پختونخوا سے کوئی اسامی نہیں ہے اس معاملے کو کمیٹی کے سپرد کیا جائے جس پر چیرمین سینیٹ نے معاملہ کمیٹی کے سپرد کردیا سینیٹر مشتاق احمد خان نے ضمنی سوال کرتے ہوئے کہاکہ گلابی نمک پاکستان کا قیمتی اثاثہ ہے یہ کن کن ممالک کو برآمد ہورہا ہے جس پر وزیر مملکت برائے قانون سینیٹر شہادت اعوان نے کہاکہ گلابی نمک انڈیا نہیں جارہا ہے تاہم یورپی ممالک میں یہ نمک بھیجی جارہی ہے جس سے قیمتی زرمبادلہ حاصل ہورہا ہے ۔

سینیٹر وقار مہدی نے ضمنی سوال کرتے ہوئے کہاکہ غیر فعال حکومتی اداروں کے بارے میں حکومت کی کیا پالیسی ہے جس پر وزیر مملکت برائے قانون نے کہاکہ پاکستان اسٹیل ملز کو سالانہ 10ارب روپے کا بجٹ دیا جارہا ہے اس وقت 3ہزار کے قریب ملازمین کو 11کروڑ روپے سے زائد کی تنخواہیں اور پنشن ادا کی جارہی ہے انہوں نے کہاکہ اسٹیل ملز کی نجکاری کا عمل شروع کیا گیا ہے سینیٹر ہمایون مہمند نے کہاکہ غیر فعال سرکاری اداروں میں سیاسی بنیادوں پر بھرتیاں ہوئی ہیں جس کی وجہ سے یہ ادارے تباہ ہوگئے ہیں ان اداروں کے نقصانات کی وجہ جاننے کیلئے معاملے کو کمیٹی کے سپرد کیا جائے جس پر چیرمین سینیٹ نے معاملہ کمیٹی کو منتقل کردیا سینیٹر وقار مہدی نے کہاکہ سندھ میں صرف 520ریگولر سٹورز ہیں اس میں اضافہ کیا جائے انہوں نے کہاکہ سٹورز میں سبسڈیز والی اشیاء دستیاب نہیں ہوتی ہیں جس پر وزیر مملکت برائے قانون سینیٹر شہادت اعوان نے کہاکہ یوٹیلیٹی سٹورز پر 12ہزار ملازمین کام کر رہے ہیں جبکہ ملک بھر میں عوام کو مارکیٹ سے کم ریٹ پر اشیاء فراہم کر رہے ہیں اس موقع پر چیرمین سینیٹ نے معاملہ متعلقہ کمیٹی کے سپرد کردیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button