جسٹس منصورعلی شاہ نےاپنے ہی ادارے کی کمزوریوں اور غلطیوں کو بےنقاب کردیا
سپریم کورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ آئین کہتا ہے آزاد عدلیہ ہونی چاہیے جو سستا انصاف دے
لاہور(کھوج نیوز) سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ نے بھی اپنے ہی ادارے کی کمزوریوں اور غلطیوں کو بے نقاب کردیا،جسٹس منصور علی شاہ نے لاہور میں ایک تقریب کے دوران کئے گئے اپنے کظاب میں کہا کہ جب بھی کوئی نیا چیف جسٹس ملک کی سب سے بڑی انصاف کرنے والی کرسی پر بیٹھتا ہے وہ آئین اور قوانین کی اپنی مرضی سے تشریح کرتا ہے جو سراسر غلط ہے ۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ انصاف کرنے والے اداروں کو اپنا قبلہ درست کرنا ہو گا اس سلسلے میں قانون ساز اداروں کو آئینی اصلاحات لانا ہوں گی جن پر اعلیٰ عدلیہ من و عن عمل کرتے ہوئے عوام کو انصاف مہیا کرسکے۔
سپریم کورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ آئین کہتا ہے آزاد عدلیہ ہونی چاہیے جو سستا انصاف دے۔ لاہور میں عاصمہ جہانگیر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آئین میں لکھا ہے عدلیہ کو مکمل آزاد ہونا چاہیے، جب تک انفرادیت سے نکل کر سسٹم کی طرف نہیں آئیں گے اسی طرح معاملہ چلے گا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جب تک سسٹم کے تابع نہیں ہوں گے آگے نہیں چل سکیں گے، آئین میں لکھا ہے عدلیہ سستا انصاف دے، کچھ فیصلے برے ہوسکتے ہیں، روزانہ 4 ہزار جج کام کر رہے ہیں، پاکستان میں 24 لاکھ کیس زیر التوا ہیں، جنوری 2023ء سے دسمبر 2023ء تک 1.39 ملین کیسوں کے فیصلے دیے۔
انہوں نے کہا کہ میں عدلیہ کی تاریخ سے بہت خوش نہیں ہوں، کچھ ایسا ہو جاتا ہے جس پر عدلیہ پر تنقید ہوتی ہے، زیر التوا کیس کے لیے ٹیکنالوجی کا سہارا لینا ضروری ہے، اپنےسسٹم میں آئی ٹی نہیں لائیں گے تو 24 لاکھ کیس نمٹانا مشکل ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ کسی سیشن جج سے پوچھوں تو وہ کیس کے بارے میں نہیں بتا سکتے، ہمیں اسمارٹ ٹیکنالوجی ڈسڑکٹ لیول تک لے کر جانی ہے، دنیا میں ہماری عدلیہ کے بارے میں ڈیٹا قابل تشویش ہے۔
جسٹس منصور نے کہا کہ جو جج صحیح کام نہیں کررہا تو نکال باہر کریں، کرپشن پر زیرو ٹالرنس ہونی چاہیے، عدلیہ میں کرپشن کو مکمل ختم ہونا چاہیے، جس جج کوسلیکٹ کر رہے ہیں سفارش کے بجائے اس کا کام دیکھیں اور میرٹ پر بنائیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پاکستان میں 4 ہزار ججز ہیں اور 3 ہزار کام کر رہے ہیں، پاکستان کی آبادی 231 ملین ہے، اس تناسب سے فی ملین 13 جج ہیں، دنیا میں اوسطاً فی ملین آبادی پر 90 جج ہیں، عالمی معیار فی ملین آبادی پر 90 جج کو اپنایا جائے تو پاکستان کو21 ہزار جج درکار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بات بات پر ہڑتال ہوتی ہے، کرکٹ میچ ہار گئے تو اسٹرائیک ہو جائے گی، لوگ بکریاں بھینس بیچ کر عدالتوں میں آتے ہیں۔
جسٹس منصور کا کہنا تھا کہ برازیل میں بجٹ میں سب سے اہم جوڈیشری ہے، ورلڈ بینک کی رپورٹ کے تحت 80 فیصد کیس ملتوی کرا دیے جاتے ہیں، جہاں عدلیہ کی جانب سے کچھ ہوتا ہے وہاں وکلاء بھی کیسوں میں تاخیر کرتے ہیں، ہڑتال میں کسی شخص کو عدالت آنے کیلئے کیا قیمت ادا کرنی پڑتی ہے اس کا احساس کریں۔
انہوں نے کہا کہ برطانیہ میں 203 لوگوں کیلئے ایک وکیل ہے، پاکستان میں ایک ہزار لوگوں کے لیے ایک وکیل ہے، پاکستان میں وکلاء کی تعداد بڑھنی چاہیے لیکن وکلاء صحیح ہوں، دنیا بھر میں کمرشل کورٹس کو اہمیت دی جاتی ہے ہمیں اس پر توجہ دینی ہوگی، پاکستان میں کمرشل کوریڈور بنے گا اس سے معیشت کے معاملات حل کرنے میں آسانی ہوگی۔
جسٹس منصور نے کہا کہ پاکستان کی آبادی کا 50 فیصد خواتین ہیں لیکن ہم خواتین جج نہیں لا رہے، 562 جج خواتین ہیں اس کیلئے ہمیں اہم اقدامات کرنا ہوں گے، جب تک ٹریننگ نہیں ہوگی سسٹم نہیں چل سکتا، ٹریننگ اور اصلاحات چھوڑ دیں تو سسٹم میں بہتری نہیں آسکے گی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جسٹس سسٹم کمزور ہوگا تو کوئی سسٹم نہیں چلے گا، مضبوط جسٹس سسٹم دیگر اداروں کو بھی مضبوط کرے گا۔