پاکستان

خطے میں ایک بار پھر علاقائی اور عالمی پراکسی وار شروع ہو چکی ہے’ سلیم صافی کا چونکا دینے والا انکشاف

ہماری سب سے بڑی غلطی تو یہ ہے کہ ہم افغانوں کو طعنہ دیتے ہیں اور طعنے کا وہ بہت برا مناتے ہیں : سلیم صافی کا کالم میں انکشاف

اسلام آباد(کھوج نیوز) سینئر صحافی و کالم نگار سلیم صافی نے چونکا دینے والا انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ خطے میں ایک بار پھر علاقائی اور عالمی پراکسی وار شروع ہو چکی ہے۔

تفصیلات کے مطابق سینئر صحافی سلیم صافی نے اپنے کالم میں انکشاف کیا کہ ایک انتہاء سے دوسری انتہاپر جانا کوئی ہم سے سیکھے۔ ہماری مسلسل دہائیوں، تقریروں اور تحریروں کے باوجود پہلے کوئی یہ ماننے کو تیار نہیں تھا کہ ٹی ٹی اے اور ٹی ٹی پی کا آپس میں کوئی تعلق ہے اور اب ہماری ریاست دوسری انتہاپر چل کر یہ ورد کرنے لگی ہے کہ یہ تو یک جان دو قالب ہیں اور یہ کہ ٹی ٹی پی جو بھی کارروائی کرئیگی اسکا جواب افغانستان کو دیا جائیگا۔ریاست سے معاملہ عام افغانوں تک چلاگیا ۔ پہلے ایک طرح کے بے چارے افغانوں کو نکالا گیا اور اب کارڈز والے افغانوں کو نکالنے کی تیاریاں ہیں لیکن اپنی غلطیوں پر ہم دھیان نہیں دیتے ۔ ہماری سب سے بڑی غلطی تو یہ ہے کہ ہم افغانوں کو طعنہ دیتے ہیں اور طعنے کا وہ بہت برا مناتے ہیں ۔ مثلا ہمارے حکمران ان دنوں یہ طعنہ دے رہے ہیں کہ ہم نے طالبان کو اتنا عرصہ سپورٹ کیا اور اب وہ ہمارے احسان کو بھول گئے ہیں ۔ اب اس دعوے کی حقیقت یہ ہے کہ ہم علانیہ طور پر تو امریکہ کے اتحادی تھے اور طالبان کو جو سپورٹ کیا ہے وہ درپردہ کیا ہے ۔ طالبان کے ذہنوں میں تو یہ ہے کہ پاکستان امریکہ کی فرنٹ لائن اسٹیٹ تھا۔ ملا عبدالسلام ضعیف کو بے شرمی سے گرفتار کرکے امریکہ کے حوالے کیا گیا۔ استاد یاسر یہاں پر قتل ہوا ۔ ملا برادر کو جیل میں رکھا گیا وغیرہ وغیرہ۔لیکن ہم نے جو احسان کئے ہیں اس کاعلانیہ طور پر بوجوہ تذکرہ بھی نہیں کرسکتے کیونکہ پھر تو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے مجرم بنیں گے ۔ چنانچہ جب ہم احسانات کا طعنہ دیتے ہیں تو افغان طالبان کی طرف سے سخت ردعمل سامنے آتا ہے اور دوسری طرف طالبان مخالف افغان کہتے ہیں کہ دیکھو ہم نہ کہتے تھے کہ پاکستان ڈبل گیم کررہا ہے اور آج جو ہم دربدر ہیں تو یہ پاکستان کی وجہ سے ہیں ۔ اس لئے طعنوں کا سلسلہ تو فوری طور پر بند ہونا چاہئے۔

کالم میں سلیم صافی نے مزید لکھا کہ جہاں تک ٹی ٹی پی کا معاملہ ہے،پہلی غلطی تو پاکستان نے یہ کی کہ ٹی ٹی پی سے متعلق شق کو قطر معاہدے میں ڈلوانے میں ناکام رہا ۔ پاکستان کو اس وقت تک قطر معاہدے میں تعاون نہیں کرنا چاہئے تھا جب تک وہ اس شق کو نہ ڈلواتا لیکن زلمے خلیل زاد کی مخالفت کی وجہ سے اس شق کو نہیں ڈلوایا گیا جس کا خمیازہ ان دنوں ہم بھگت رہے ہیں ۔ ہمارے پالیسی سازوں نے جلدبازی میں افغان طالبان پر زور دیا کہ آپ ہمیں ٹی ٹی پی کے ساتھ بٹھادیں تو ہم اپنا مسئلہ حل کرلیں گے ۔افغان طالبان نے ٹی ٹی پی کی پوری قیادت کو ہمارے ڈی جی آئی ایس آئی کے ساتھ بٹھایا جس میں ایک مہینے کی جنگ بندی ہوئی اور جواب میں طالبان کے 100ے زائد رہنماوں کو رہا کرنے کا وعدہ ہوا۔ وہ پورا ایک مہینہ گزر گیا لیکن ہمارے ڈی جی آئی ایس آئی یہاں ٹی ایل پی کے مسئلے میں مصروف ہوگئے اور ان کا ایک بندہ بھی رہا نہ ہوسکا۔ مذاکرات کا صرف ایک دور ہوا تھا کہ پاکستان میں عسکری قیادت تبدیل ہوئی جس کے ساتھ پالیسی بھی تبدیل ہوگئی۔ نئی پالیسی یہ بنائی گئی کہ ٹی ٹی پی سے براہ راست کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے اور جو بھی بات ہوگی وہ افغان طالبان کے ساتھ ہوگی ۔ اب افغان طالبان کہتے ہیں کہ آپ لوگ ٹی ٹی پی کے ساتھ اپنا مسئلہ خود حل کرلیں ہم سہولت کاری کریں گے لیکن ہماری ریاست اس کیلئے تیار نہیں ۔ ہماری ریاست کا موقف ہے کہ پوری ٹی ٹی پی افغانستان میں ہے ۔ وہ جو کچھ کررہے ہیں افغان طالبان کے تعاون سے کررہے ہیں اور وہ پاکستان کے خلاف کارروائیاں کریں گے تو ہم اس کیلئے افغان حکومت کو ذمہ دار قرار دیں گے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button