طالبان کےحوالےسےمولانا فضل الرحمٰن اورعمران خان سیم پیج پر،بڑا دعویٰ سامنے آگیا
صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے امکان ظاہر کیا کہ ایسا لگتا ہے کہ مقتدرہ کی طالبان کے حوالے سے پالیسی پر مولانا اور عمران خان کی سوچ ایک ہے۔
لاہور(ویب ڈیسک)طالبان کےحوالےسےمولانا فضل الرحمٰن اورعمران خان سیم پیج پر،بڑا دعویٰ سامنے آگیا۔ طالبان کے حوالے سے مولانا فضل الرحمٰن اور عمران خان سیم پیج پر ہیں سینئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے امکان ظاہر کیا کہ ایسا لگتا ہے کہ مقتدرہ کی طالبان کے حوالے سے پالیسی پر مولانا اور عمران خان کی سوچ ایک ہے۔۔انھوں نے اپنے کالم میں دعویٰ کیا کہ مولانا صرف ملکی سیاست کا محور نہیں ہیں انکے پیش نظر عالمی سیاست بھی ہوتی ہے اسی لئے وہ بھارت جا کر بھی امن مذاکرات کا ڈول ڈال آئے تھے، الیکشن سے پہلے وہ افغانستان گئے تھے اور دونوں ملکوں کے درمیان امن و صلح کے کسی معاہدے پر پہنچنے کی کوشش کی تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ مقتدرہ کی طالبان کے حوالے سے پالیسی پر مولانا اور عمران خان کی سوچ ایک ہے اور مولانا کی حکمت عملی میں تبدیلی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے، یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مولانا، آصف زرداری کو صدر بنانے کی وجہ سے مقتدرہ اور نون لیگ دونوں سے ناراض ہو گئے ہیں کیونکہ پی ڈی ایم کے بڑے رہنما کے طور پر وہ اس عہدے پر اپنا حق سمجھتے تھے، وجہ کچھ بھی ہو حقیقت یہی ہے کہ سیاست کے بادشاہ نے موجودہ حکومت اور موجودہ مقتدرہ کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا ہے انکے اس اقدام سے تحریک انصاف کو اخلاقی، مادی اور سیاسی فائدہ پہنچے گا۔
مولانا اور تحریک انصاف کے تعاون کا مطلب یہ بھی ہے کہ پورے کا پورا صوبہ پختونخوا اپوزیشن کا قلعہ بن جائے گا کیونکہ وہاں کی دونوں بڑی جماعتوں کے علاوہ کسی تیسری جماعت کی کوئی نمایاں آواز ہی نہیں ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے لوگ مولانا کو باقی پاکستان کی نسبت بہت زیادہ جانتے ہیں اس لئے وہ انہیں سیاست کا بادشاہ کہتے ہیں اگر اس لقب پر غور کیا جائے تو مولانا کو ابھی تک اقتدار میں جتنا حصہ ملتا رہا ہے وہ ان کے شان شایان نہیں، وہ تو اس شعبے کے بادشاہ ہیں اور انہیں واقعی حکومت کا بادشاہ بھی بننا ہے۔ جب تک انہیں اس کا موقع نہیں ملتا وہ منطق، دلیل اور اپنی سیاست کے دائو پیچ سے اس مقام تک پہنچنے کی کوشش کرتے رہیں گے، جو مقتدرہ اور جو سیاسی پارٹی ان کے اس عزم کے راستے میں رکاوٹ بنے گی وہ اس کا راستہ کاٹتے رہیں گے۔
میری رائے میں مولانا کو توڑنے نہیں جوڑنے کا کردار ادا کرنا چاہیے، وہ پارلیمان میں بیٹھ کر اس پارلیمانی کمیٹی کی سربراہی کریں جو انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات کرے، پارلیمان کے ذریعے ہی، مولانا کی مدد سے عمران خان کے واپس سیاست میں آنے اور ریاست کا اسٹیک ہولڈر بننے کا راستہ ہموار کیا جائے۔ ریاست سے لڑ کر ریاست کوکمزور کرنا کسی کے مفاد میں نہیں، مقتدرہ کو بھی مولانا کی اہمیت سمجھتے ہوئے ان سے انکے مقام کے مطابق ڈیل کرنا چاہیے ورنہ سیاست کا بادشاہ شطرنج کی بازی ہی نہ الٹا دے…..!