پاکستان

عدلیہ کے خلاف پارلیمان کا اعلان جنگ، اراکین اسمبلی نے جوڈیشل مارشل لاء نامنظور کے نعرے لگا دیئے

عدلیہ کا وقار پارلیمنٹرینزکو توہین عدالت کا نوٹس دینے سے نہیں کارکردگی سے بلند ہوگاپراکسی کہنا کوئی برداشت نہیں کرے گا: اراکین اسمبلی کا نعرہ

اسلام آباد(کھوج نیوز) عدلیہ کے خلاف پارلیمان کا اعلان جنگ، راکین اسمبلی نے جوڈیشل مارشل لاء نامنظور کے نعرے لگاتے ہوئے عدلیہ پر شدید الفاظ میں تنقید اور برہمی کا اظہار کیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر اعظم نذیر تارڑ نے سینیٹ اجلاس میں کہا کہ آئین عدالت کو یہ اختیار نہیں دیتا کہ وہ غصے میں جو مرضی آئے کہہ دے کیا ہمیشہ سیاستدان ہی سزائیں بھگتیں گے کہ کبھی کسی وزیر اعظم کو لٹکا دیں تو کسی کو گھر بھیج دیں۔ ن لیگ کے طلال چوہدری نے کہا کہ عدلیہ کا وقار پارلیمنٹرینزکو توہین عدالت کا نوٹس دینے سے نہیں کارکردگی سے بلند ہوگاپراکسی کہنا کوئی برداشت نہیں کرے گا۔ایم کیو ایم کے فیصل سبزواری نے کہا کہ توہین توہین کا کھیل بند کیا جائے یہ نہیں ہونا چاہیے کہ فیصل واوڈا اور مصطفی کمال کراچی کے ہیں اس لیے انہیں توہین عدالت کا نوٹس کردو ۔

سینیٹرکامران مرتضی نے کہا کہ اگر آپ ججز کو ایسے نشانہ بنائیں گے تو تاثر پیدا ہو گا کہ آپ کسی اور کی پراکسی بن رہے ہیں۔سینیٹر ایمل ولی نے بھی کہا کہ ہم کیوں پرائی لڑائی میں گھسیں، پراکسی کو پراکسی کہنے سے تکلیف ہو گی۔عدلیہ پر تنقید پر تحریک انصاف نے ایوان میں احتجاج کردیا سینیٹر ذیشان خانزادہ نے کہا کہ ججز کے کنڈکٹ پر بات نہیں ہو سکتی، اس پر شیری رحمن نے کہا کہ اگر رکن کا استحقاق مجروح ہو تا ہے تو بات ہو سکتی ہے۔ شیری رحمان نے کہا کہ فیصل وواڈا کا معاملہ سنجیدہ نوعیت کا ہے۔ بدھ کوقائم مقام چیئرمین سینیٹ سیدال خان اور پزائیڈنگ افسر شیری رحمن کی زیر صدارت سینیٹ اجلاس ہوااس دوران خطاب کرتے ہوئے وزیر قانون نے کہا کہ تنقید ہم پر بھی ہوتی ہے لیکن جو ادارے کام کر رہے ہیں وہ بھی دائرہ اختیار میں رہ کر کام کریں، آئین پاکستان کسی عدالت کو یہ اختیار نہیں دیات کہ وہ غصے میں جو دل میں آئے وہ کہہ دے، وہ کہے کہ ابھی یہ کام ایسے نا ہوا تو وزیر اعظم یا کابینہ کو یہاں بٹھا دوں، یہ منتخب نمائندے ہیں، آئین کسی عدالت کو وزیر اعظم کی طلبی کا اختیار نہیں دیتاآپ فیصلوں کے ذریعے جو کرنا چاہتے ہیں کریں یہ شرط تو نہیں کہ سامنے ساری کابینہ یا وزیر اعظم کو سب کام چھڑواکر بٹھا دیںکسی شخص کے بارے میں کہنا کہ وہ فلاں کا ایجنٹ ہے تو وہ غلط ہے۔طلال چوہدری نے کہا کہ مجھے عدالت سے معافی نہیں ملی لیکن جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن مل گئی۔پاکستان میں سلیکٹو توہین عدالت کے کیسز لگتے ہیں مساوات کا کوئی قانون نہیں پوری دنیا میں توہین عدالت کا قانون ختم ہوچکا لیکن آج بھی ہم 19ویں صدی کے ہتھکنڈے اس لیے استعمال کرتے ہیں تاکہ کوئی بول نا سکے۔درگزر کا اصول عدالت کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے، اگر سسلین مافیا، پراکسی جیسے الفاط کہیں تو اسے کون برداشت کرے گا؟جب نواز شریف کا کیس چل رہا تھا تو ثاقب نثار نے مجھے پیغام بھجوایا کہ نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف بیان دو گے تو پارلیمنٹ جا وگے ورنا جیل جاوگیہم لڑنا نہیں چاہتی لیکن اس کام کو روکیں ابھی، بس۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button