پاکستان

فوج یا اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت،انصارعباسی نے اداروں کی کمزوریوں سے پردہ اُٹھا دیا

صحافی و تجزیہ کارانصار عباسی کا کہنا ہے کہ فوج یا اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت پر اعتراض ضرور کرنا چاہیے لیکن اُن کمزوریوں اور خامیوں کو دور کرنا چاہیے جو بار بار فوج کی طرف سے سیاست میں مداخلت کا سبب بنتی ہیں۔

لاہور ( ویب ڈیسک) سینئر صحافی و تجزیہ کارانصار عباسی کا کہنا ہے کہ فوج یا اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت پر اعتراض ضرور کرنا چاہیے لیکن اُن کمزوریوں اور خامیوں کو دور کرنا چاہیے جو بار بار فوج کی طرف سے سیاست میں مداخلت کا سبب بنتی ہیں۔ہمارے عدالتی نظام کی کیا حالت ہے سب کو معلوم ہے۔ اس نظام کو درست کریں تاکہ سب کو انصاف ملے۔ عدلیہ ٹھیک ہوتی تو نہ یہاں مارشل لاء لگتے، نہ سیاسی مداخلت ہوتی اور نہ ہی سیاستدان اور سول حکومتیں میرٹ کا قتل کرتیں۔

 ” اپنے بلاگ بعنوان "دو انتہائیں” میں  انصار عباسی نےلکھا کہ فوج یا اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت پر اعتراض ضرور کرنا چاہیے اور اس مسئلہ کے دیر پا حل کیلئے اسٹیبلشمنٹ، سیاستدانوں، سول حکومت اور عدلیہ سب کو اپنی اپنی بنیادی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے اُن کمزوریوں اور خامیوں کو دور کرنا چاہیے جو بار بار فوج کی طرف سے سیاست میں مداخلت کا سبب بنتی ہیں۔دہائیوں سے جاری اس مسئلہ کا کیا کوئی فوری حل ممکن ہے؟ اس سوال پر بھی بحث ہوتی رہنی چاہیے لیکن ایک طرف یہ سمجھنا اگر غلط ہے کہ سیاستدان تو سب کے سب چور ہی ہوتے ہیں اور کوئی بھی پاکستان کے ساتھ مخلص نہیں تو دوسری طرف فوج کو اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت کی وجہ سے اپنا دشمن سمجھنا دراصل اُس کی اُس اہمیت سے انکار کے مترادف ہے، جس کا تعلق پاکستان کے دفاع اور اندرونی سیکیورٹی معاملات سے ہے، یہ ایسا رویہ ہے جو پاکستان کی سالمیت کیلئے بہت خطرناک ہو سکتا ہے۔

اپنے بلاگ میں انصار عباسی نے مزید لکھا کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ اور سول حکومت و سیاستدانوں کی اس تاریخی لڑائی میں پاکستان کی عدلیہ کا بہت گھناؤنا کردار رہا۔ اگر پاکستان کی عدلیہ ٹھیک ہوتی تو نہ یہاں مارشل لاء لگتے، نہ سیاسی مداخلت ہوتی اور نہ ہی سیاستدان اور سول حکومتیں میرٹ کا قتل کرتیں، نہ یہاں سفارش اور اقرباءپروری کا راج ہوتا اور نہ ہی غلط طرز حکمرانی کا رواج ہوتا۔ عدلیہ کچھ درست کرنے کی بجائے اس سول ملٹری لڑائی میں ایک سہولت کار کا کردار ادا کرتی رہی۔عمران خان کی حکومت کے خاتمہ اور تحریک انصاف کے فوج مخالف بیانیہ کے بعد عدلیہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کی سہولت کاری کی بجائے اُس کے خلاف جاتی ہوئی نظر آئی۔

کچھ لوگوں کی رائے میں ججوں کا ایک طبقہ تو وہ تھا جو خان کی محبت میں کسی بھی حد تک جانے کیلئے تیار تھا جبکہ ایک طبقہ وہ تھا جو اپنے آپ کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ ثابت کرنے کیلئے فوج کو گالیاں دینے والوں کو بھی رعایتیں دے رہا تھا۔اسی دوران 9 مئی کے واقعات رونما ہوگئے جو نہ صرف پاکستان کیلئے ایک بہت بڑا دھچکا تھے بلکہ فوج کے ادارے کیلئے 9/11سے کم نہ تھے۔ اُس وقت جس طرح سپریم کورٹ نے عمران خان کو پروٹوکول دیا اور اُن کی فوری رہائی کیلئے راستہ ہموار کیا وہ بھی اپنی ہی قسم کی ایک مثال تھی۔

اپنے بلاگ کے آخر میں انصار عباسی نے لکھا کہ یہ معاملہ بہت سنجیدہ ہے۔9 مئی کے ملزمان کی حد تک فیصلہ ہوتا تو شاید بہت سوں کو اعتراض نہ ہوتا لیکن آرمی ایکٹ کے ایسے حصے کو ہی خلاف آئین قرار دینے سےغیر ملکی جاسوسوں، فوجی اور حساس ترین تنصیبات پر حملہ کرنے والے غیر ملکی دہشت گردوں تک کے خلاف بھی آرمی ایکٹ کے تحت مقدمہ نہیں درج ہو سکتا۔آرمی پبلک سکول کے سانحہ کے بعد آئین میں ترمیم کر کے 4 سال کیلئے دہشت گردی کے واقعات میں شامل ملزموں کے فوجی ٹرائل کیے گئے کیوں کہ ہمارا سول عدالتی نظام دہشت گردوں کو سزائیں دینے میں ناکام رہا تھا۔ہمارے عدالتی نظام کی کیا حالت ہے سب کو معلوم ہے۔ اس نظام کو درست کریں تاکہ سب کو انصاف ملے۔آرمی ایکٹ کا اگر غلط استعمال کیا جاتا ہے تو اُسے روکنا بھی عدلیہ کی ذمہ داری ہے لیکن قانون کو ہی جلدی میں سب کو سنے بغیر ختم کرنا، یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اس کا فائدہ ملک دشمن، کلبھوشن جیسے غیر ملکی جاسوس اور دہشت گرد اُٹھائیں گے اس فیصلہ کو متنازع بنا دیتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button