پاکستان

نوازشریف کی واپسی، عدالت خود کٹہرے میں کھڑی ہو گئی’ عرفان صدیقی

بغض و عناد اور ناانصافی کے طمانچے کھانے والے شخص کو ایک بار پھر قانون وانصاف کے مراحل درپیش 'عدالتی سلوک کی شرمناک کہانی کو پیش نظر رکھا جائے تو خود عدالت کٹہرے میں کھڑی ہے

لاہور (خصوصی رپورٹ) سینئر تجزیہ کار وسینیٹر عرفان صدیقی نے دعویٰ کیا ہے کہ سابق وزیراعظم نوازشریف کی واپسی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اس مرتبہ عدالت خود کٹہرے میں کھڑی ہو گئی ہے۔

تفصیلات کے مطابق سینئر تجزیہ کار و سینیٹر عرفان صدیقی نے اپنے بلاگ ”کیا عناد، انصاف پر حاوی رہے گا؟”میں لکھا ہے کہ کیا سابق وزیراعظم نوازشریف کوبیٹے سے تنخواہ نہ لینے کے جرم میں منصب سے برطرف کرکے عمر بھر کی نااہلی کی مہر لگا دینا، جج صاحبان کے حلف کی درست عکاسی کرتا ہے؟ سسلین مافیا اور گاڈفادر جیسی متعفن گالیوں کو نظرانداز بھی کردیں تو کیا یہ مضحکہ خیز فیصلہ اور اس کی کوکھ سے پھوٹنے والے متعدد فیصلے عناد میں لتھڑے ہوئے نہ تھے؟سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرایکٹ کا فیصلہ آگیا۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ دوتہائی جج صاحبان کی اکثریت سے ایکٹ کو درست قانون قرار دے دیا گیا۔ یوں قانون سازی کے حوالے سے پارلیمنٹ کی بالادستی تسلیم کرلی گئی ہے۔ اس اصول کا طے پاجانا بھی نہایت مثبت پیش رفت ہے کہ عدلیہ کے صوابدیدی اختیار (184/3) کے تحت سزا پانے والے شخص کو اپیل کا حق حاصل ہوگا۔ تاہم 7 کے مقابلے میں8جج صاحبان کا فیصلہ ہے کہ اپیل کا حق موثر بہ ماضی نہیں ہوگا۔

اپنے بلاگ میں عرفان صدیقی نے مزید لکھا کہ عدلیہ نے آزادی کے نام پر اپنے گرد ایک مقدس نورانی ہالے کا حصار سا بنا رکھا ہے۔ وہ مظلوم کی دادرسی، لوگوں کے بنیادی حقوق اور عدلیہ کی عالمی رینکنگ میں تنزل سے کہیں زیادہ اپنی بے مہار آزادی میں دلچسپی رکھتی ہے۔ ہر سوال سے آزاد۔ پارلیمنٹ سے بھی ماوری۔ ڈکٹیٹروں کو خلعتِ جواز دینے میں آزاد، انہیں آئین کی چیر پھاڑ کی اجازت دینے میں آزاد، جج کے گھر جاکر دھمکیاں دینے والے جرنیل سے بازپرس نہ کرنے میں آزاد، جج کو برق رفتاری سے نمونہِ عبرت بنا دینے میں آزاد، رغبت وعناد سے فیصلے کرنے میں آزاد، اللہ سے باندھا گیا عہدِ وفا توڑنے میں آزاد، پارلیمان کے بطن میں پڑے قانون کا سانس لینے سے بھی پہلے گلا گھونٹ دینے میں آزاد، 60 ہزار زیرِالتوا مقدمات کو بھاڑ میں جھونک کر سردیوں اور گرمیوں کی طویل چھٹیاں منانے میں آزاد اور تقاضا یہ کہ پارلیمنٹ سمیت تمام ادارے اور 26 کروڑ پاکستانی اندھے عقیدت مندوں کی طرح دست بستہ اس کے حضور کھڑے رہیں۔

بلاگ کے آخر میں عرفان صدیقی نے لکھا کہ نوازشریف4 سالہ جلا وطنی کے بعد ان شا اللہ 21 اکتوبر کو واپس وطن آرہے ہیں۔ بغض و عناد اور ناانصافی کے طمانچے کھانے والے شخص کو ایک بار پھر قانون وانصاف کے مراحل درپیش ہوں گے لیکن اس کے ساتھ روا رکھے گئے عدالتی سلوک کی شرمناک کہانی کو پیش نظر رکھا جائے تو نوازشریف نہیں، خود عدالت کٹہرے میں کھڑی ہے۔ معاملہ نوازشریف کا نہیں، عدلیہ کی ساکھ کا ہے۔ اس کے وقار کا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا عزت مآب چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کے عہد میں بھی عدلیہ کے بال وپرغبار آلودہِ رغبت وعناد ہی رہیں گے اور کیا عدلیہ کے ماتھے کا داغ بن جانے والے فیصلے کسی تکنیکی موشگافی کے باعث اسی طرح اس کی پیشانی پر چِپکے رہیں گے؟ کیا قاضی صاحب کے دور میں بھی عناد، انصاف پر حاوی رہے گا؟

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button