پاکستان

پھانسی، جلا وطنی اور جیل کی سلاخیں، اسٹیبلشمنٹ کا تماشا کب تک ختم ہوگا؟ سوال اٹھ گئے

کیا نواز شریف کے ساتھ واقعی کوئی ڈیل ہوئی ہے یا ان کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے جس وجہ سے اسٹیبلشمنٹ کو یہ کڑوا گھونٹ پینا پڑا ہے؟

لاہور(کھوج نیو) ملک کے ابتدائی 25 سالوں کا ذکر نہیں کرتے۔ ملک ٹوٹنے کے بعد حکومتیں بنانے، ڈھانے، کبھی وزرائے اعظم کو بھرے جلسوں میں تو کبھی لٹکا کر مارنے، جلاوطن کرنے اور جیل میں ڈالنے کا جو تماشا شروع ہوا تھا، کیا یہ کبھی ختم بھی ہو گا؟

احتساب اور انصاف کے ادارے اسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈے کو مکمل کرانے میں کب تک آگے آگے رہیں گے؟ پاکستانی سیاست کے مومن ایک ہی سوراخ سے خود کو کب تک ڈسواتے رہیں گے؟ کیا یہ سلسلہ بند ہو گا؟کیا نواز شریف کے ساتھ واقعی کوئی ڈیل ہوئی ہے یا ان کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے جس وجہ سے اسٹیبلشمنٹ کو یہ کڑوا گھونٹ پینا پڑا ہے؟ سیاست سے ابھی تک امیدیں وابستہ رکھنے والے لوگ ان ہی سوالات کے گرد گھوم رہے ہیں۔

جیسے ہی کوئی وزیراعظم بنے یا بنوایا جائے تو ایک سال بعد ہماری اسٹیبلشمنٹ کو لگتا ہے کہ بندہ کام کا نہیں ہے۔ پھر آہستہ آہستہ مختلف قوتیں جوڑ کر اس کے سامنے کھڑی کر دی جاتی ہیں۔ لانگ مارچ ہوتے ہیں۔ دھرنے کروائے جاتے ہیں۔ اگر وزیر اعظم زیادہ ضدی ہو تو پھر اسلام آباد کا ریڈ زون کراس ہو جاتا ہے۔ پارلیمنٹ ہاس کے احاطے میں ڈیرے لگے رہتے ہیں۔ سپریم کورٹ کی دیواروں پر شلواریں لٹکتی ہیں۔ انقلابی عوام کو انگیج کرنے کیلئے ان دھرنوں میں کبھی قبریں کھدوائی جاتی ہیں تو کبھی کفن پوش مارچ کیے جاتے ہیں۔ شام کو کنسرٹ کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔ دن بھر کے تھکے ہارے کارکنوں کو محظوظ کرانا بھی لازم ہوتا ہے۔ اس طرح کی سرمایہ کاری چند کروڑ پتیوں کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ لیکن ہر کوئی سمجھتا ہے کہ اس کا بندوبست کس کے کہنے پر ہوتا ہے۔

ضیا الحق سے لے کر مشرف تک کسی بھی سویلین حکومت نے مدت پوری نہیں کی۔ جنرل ضیا الحق کی موت کے بعد جو انتخابات ہوئے ان میں پیپلز پارٹی کا راستہ روکنے کیلئے آئی جے آئی بنوائی گئی۔ سابق ڈی جی آئی ایس آئی حمید گل نے اس گناہ کا اعتراف کیا۔ غلام اسحاق خان نے اسمبلی توڑ کر نئے انتخابات کرائے۔ اس بار نواز شریف کو وزیراعظم بنوایا گیا لیکن اس نے بھی آئینی مدت پوری نہیں کی۔ پھر بے نظیر، اس کے بعد پھر نواز شریف۔ لیکن کھیل جاری رہا۔ بی بی کی شہات کے بعد 3 اسمبلیوں نے اپنی مدت تو پوری کی لیکن 6 وزرائے اعظم کے ساتھ۔ 2 کو سپریم کورٹ نے نااہل کیا اور ایک وزیر اعظم ماتحت عدالت کی جانب سے نااہل کر دیا گیا۔ یہ کھیل ابھی بھی جاری ہے اور اس کے ختم ہونے کی امید بھی نہیں۔ نواز شریف 4 سال قبل جب ملک سے روانہ ہوئے، بہانہ کوئی بھی ہو، اگر وہ جیل میں رہتے تو عمران خان کی خواہش تھی کہ میاں صاحب جیل سے زندہ نہ نکلیں۔

عمران خان کے غلطانوں کے قصے تو بہت ہیں، جن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ وہ سمجھتا تھا کہ نواز شریف ہو گا تو پنجاب کنٹرول میں نہیں ہو گا۔ اسے اسٹیبلشمنٹ نے نواز شریف کے خلاف اتنا بھڑکایا کہ وہ اس کا حقیقی دشمن بن گیا۔ اس نے پنجاب کو اپنے ہاتھ میں رکھنے کیلئے اسٹیبلشمنٹ کی سننے کے بجائے گھر کی اسٹیبلشمنٹ کی سنی اور ملک کے بڑے صوبے کی باگ ڈور ایک ایسے شخص کے حوالے کر دی جس کو یونین کونسل بھی نہیں ملنی چاہئیے تھی۔ یہ بات ن لیگ کیلئے اچھی اور اسٹیبلشمنٹ کیلئے بری تھی اور نیوٹریلٹی کے نام پر تعلق میں دراڑ کا آغاز بھی یہیں سے ہوا۔ عمران خان سمجھ رہا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اس کا رومانس ہمیشہ چلتا رہے گا۔ اسے یقین دلایا گیا کہ ملک کا آئین اور نظام تبدیل ہو گا، ون پارٹی سسٹم نافذ ہوگا، گلیاں سنجیاں ہوں گی اور مرزا یار کا ہی راج ہو گا۔ عمران خان کو جس طرح یقین دلایا گیا تب تک اس کی سوچ ٹھیک تھی۔ کسی ملازم کے ساتھ بھلائی کا سلسلہ جاری رکھو تو وہ اس کو حق سمجھنے لگتا ہے۔ عمران نے بھی ایسا ہی کیا۔ وہ اس خوش گمانی میں گرفتار تھا کہ اقتدار کا یہ سورج غروب نہیں ہو گا۔ لیکن رات آتے دیر کہاں لگتی ہے۔

عمران خان کو نکالنے کیلئے سیاسی جماعتوں نے اسٹیبلشمنٹ کو ریسکیو کیا۔ لیکن اس کی قیمت پاکستان کی سیاست اور سیاسی جماعتوں نے ادا کی اور آنے والے سالوں میں بھی ادا کرتی رہیں گی۔ اس وقت ملک کی اسٹیبلشمنٹ، ن لیگ اور جے یو آئی ہر صورت میں عمران خان کا فزیکل خاتمہ چاہتی ہیں لیکن ن لیگ کی سنجیدہ قیادت کو اندازہ ہے کہ سیاسی قوتوں کو سیاسی قوت کے ذریعے ہی ختم کیا جا سکتا ہے۔ عمران خان کیلئے ممکن ہے کہ ن لیگ کے کچھ رہنماں کے دل میں نرم گوشہ ہو لیکن اسٹیبلشمنٹ کے پاس تو فی الحال قطعی نہیں۔ اس کا سبب یہ ہے جس اسٹیبلشمنٹ نے اسے بنایا تھا اس نے اسے نہ صرف آنکھیں دکھائیں بلکہ للکارا بھی۔ پنجاب میں طاقتور سیاسی بیس رکھنے والی کسی سیاسی جماعت کی جانب سے اس طرح کی للکار ملکی تاریخ میں کبھی پہلے نظر نہیں آتی۔ یہی سبب ہے کہ عمران خان، جو کل تک ان کی آنکھ کا تارا تھا، اب کانٹا بن چکا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ نے اس کانٹے کو نکال تو دیا ہے لیکن وہ خود بھی ذہنی طور پر زخمی ہے۔ کھلے عام اعتراف نہیں کرتی کہ جس پھول کو اگایا تھا وہی اس کے گلے کا کانٹا بن گیا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button