پاکستان

جس طرح لکھنو کا نظام حکومت مفلوج ہوچکا تھا وہی حال "تضادستان”،سینئرصحافی سہیل وڑائچ کڑوا سچ سامنے لے آئے

انھوں نے لکھا کہ امید مرتی جا رہی ہے، کوئی یہاں رہنے کو تیار نہیں ، ریاست کے حکمران اور سیاست دان امید کو جگائے رکھتے ہیں لیکن یہاں کسی کو مستقبل کی فکر ہی نہیں

لاہور ( کھوج ویب ڈیسک )جس طرح لکھنو کا نظام حکومت مفلوج ہوچکا تھا وہی حال "تضادستان”،سینئرصحافی سہیل وڑائچ کڑوا سچ سامنے لے آئے ،انھوں نے لکھا کہ امید مرتی جا رہی ہے، کوئی یہاں رہنے کو تیار نہیں ، ریاست کے حکمران اور سیاست دان امید کو جگائے رکھتے ہیں لیکن یہاں کسی کو مستقبل کی فکر ہی نہیں۔نہ سیاست میں منطقی انداز ہے نہ معاشرت اور نہ معیشت۔نتیجہ کیا نکل رہا ہے کہ کوئی بھی قومی معاملہ سلجھ نہیں رہا بلکہ ہمہ جہت الجھاؤ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ سینئر صحافی و تجزیہ کار  سہیل وڑائچ نے”قومی مرثیہ ” لکھ دیا ۔

 "اپنے کالم میں انہوں نے لکھا کہ تضادستان کے حالات دیکھ کر ہندوستان میں مشرقی تمدن کے آخری نمونے لکھنو کی یاد آتی ہے۔ ماضی کےلکھنو کی سرگزشت پڑھیں تو وہاں کے نواب، انکے حرم، انکے چسکے دار کھانے، رنگ برنگے لباس، مٹیابرج اور دوسری شاندار عمارتیں اور محل، وہاں کی جذباتی اور بھڑکیلی شاعری یاد آ تی ہے۔ اس زوال پذیر تہذیب میں میر انیس اور میر دبیر نے مرثیے کو درجہ کمال تک پہنچا دیا ۔ افسوس کہ تضادستان میں نواب واجد علی خان جیسی عیاشیاں کرنے والے اشرافیہ کے لوگ تو جا بجا نظر آتے ہیں لیکن ریاست کی کمزوری اور زوال کو بیان کرنے والا میر انیس ایک بھی نہیں۔آپ کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں دیکھیں سب سے زیادہ رش کھانوں کی دکانوں پر ہے، لائبریریاں اور میوزیم بھاں بھاں کر رہے ہیں ۔جس طرح لکھنو کا نظام حکومت مفلوج ہو چکا تھا وہی حال تضادستان کا ہے۔ تضادستان میں بھی ٹیلنٹ کی کوئی پہچان نہیں، یہاں امید مرتی جا رہی ہے ریاست کے حکمران اور سیاست دان امید کو جگائے رکھتے ہیں لیکن یہاں کسی کو مستقبل کی فکر ہی نہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button