پاکستان

پاکستان میں سیلاب متاثرین کو کونسے سنگین خطرات لاحق؟ سنسنی خیز رپورٹ

امداد کے لیے 816 ملین ڈالر کی مدد کے لئے اپیل کی گئی تھی جس میں صرف30 فیصد فنڈز ہی دستیاب ہوئے ہیں

لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستان میں سیلاب متاثرین کونسے سنگین خطرات لاحق؟ سنسنی خیز رپورٹ آگئی، اقوام متحدہ نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ پاکستان میں تباہ کن سیلاب کے بعد چھ ماہ کے عرصے میں امدادی کارکن 70 لاکھ سے زائد افراد کو خوراک اور دوسری ضروری اشیا فراہم کر چکے ہیں۔ شدید برساتی موسم کے نتیجے میں آنے والے ان غیر معمولی سیلابوں کے باعث ملک کا ایک تہائی حصہ پانی میں ڈوب گیا تھااور تقریبا 17 سو ہلاکتیں بھی ہوئیں تھیں۔ سیلاب نے لاکھوں افراد کو بے گھر کیا اور انفرا سٹرکچر کو بری طرح نقصان پہنچایا۔ مجموعی طور پر متاثرین کی تعداد تین کروڑ30 لاکھ سے زیادہ رہی یا یون سمجھ لیجئے کہ اس سیلاب کے نتیجے میں ہر سات پاکستانیوں میں سے ایک متاثر ہوا۔80 لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہو گئے اور 13 ہزار زخمی ہوئے۔ یہ اعدادوشمار پاکستان میں قائم اقوام متحدہ کے دفتر نے جاری کئے ہیں۔ ملک میں آنے والی شدید طغیانی سے تقریبا دس لاکھ مویشی ہلاک ہو گئے۔ 44 لاکھ ایکڑ زرعی زمین کو نقصان پہنچا اور 22 لاکھ مکانات، اسپتال، سکول، پانی اور حفظان صحت کی تنصیبات، سڑکیں، پل اور سرکاری عمارتیں کھنڈرات میں تبدیل ہو گئیں۔

حکومت کی قیادت میں جاری امدادی سرگرمیوں میں اقوام متحدہ اور اس کے حلیف اداروں نے مدد جاری رکھی۔ اقوام متحدہ کے ترجمان سٹیفن ووجارک نے بتایا کہ ہم کمیونیٹیز کی بحالی، ان کے روزگار کے مواقع دوبارہ پیدا کرنے اور آئندہ برساتی موسم کے لیے انہیں تیار کرنے میں حکام کی مدد کر رہے ہیں تاہم انہوں نے یہ بھی بتایا کہ امداد کے لیے 816 ملین ڈالر کی مدد کے لئے اپیل کی گئی تھی جس میں صرف30 فیصد فنڈز ہی دستیاب ہوئے ہیں اور بچوں کے لیے غذائی قلت کی شرح بدستور تشویش کا باعث ہے۔ ووجارک نے کہا کہ اقوام متحدہ کے بچوں کے فنڈ اور حلیفوں نے پاکستان میں اب تک دس لاکھ سے زائد لڑکے اور لڑکیوں اور تقریبا ساڑھے آٹھ لاکھ ماں تک رسائی حاصل کی ہے اور زندگی بچانے والی غذا کی فراہمی سے متعدد جانوں کو بچا لیا گیا ہے۔ تاہم بچوں کی نشو ونما کے لیے فنڈز کی اپیل کا محض ایک تہائی ہی مل سکا ہے جس کے نتیجے میں ایک کروڑ 20 لاکھ نو عمر افراد کو غذائی قلت کا سامنا کرنے کا خطرہ ہے۔

اقوام متحدہ کا صحت کا ادارہ یا ڈبلیو ایچ او ، 30 لاکھ افراد کو سہولتیں فراہم کر چکا ہے جب کہ خوراک اور زراعت کی تنظیم نے 70 لاکھ پاکستانیوں کو مدد فراہم کی ہے۔ تاہم 40 لاکھ افراد کو بدستور خطرے کا سامنا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گتریس نے ستمبر 2022 میں پاکستان کا دورہ کیا جس کا مقصد سیلاب کے المیے سے متاثرہ افراد کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کرنا تھا۔ وہ اس المیے کوآب و ہوا کی تباہیکا نام دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کوئی ملک بھی اس تباہی کا مستحق نہیں ہے اور پاکستان جیسے ملک خاص طور پر ان ممالک میں شامل ہیں جن کا عالمی سطح پر درجہ حرارت میں ہونے والے اضافے میں کو ئی حصہ نہیں ہے۔

عالمی درجہ حرارت بڑھنے کے نتیجے میں دنیا بھر میں خش سالی، قحط، سمندری طوفانوں، شدید بارشوں اور سیلابوں کے واقعات بڑھ گئے ہیں جن سے ہر سال انسانی جانوں کے زیاں سمیت اربوں ڈالر مالیت کی املاک کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ کرہ ارض کے درجہ حرارت میں بڑھتے ہوئے اضافے کی وجہ کاربن گیسوں کا بڑے پیمانے پر اخراج ہے۔ کاربن گیسوں کے اخراج کی زیادہ تر ذمہ داری صنعتی اور ترقی یافتہ ملکوں پر عائد ہوتی ہے، جب کہ آب و ہوا کی تبدیلی کے نقصانات زیادہ تر ان غریب اور کم ترقی یافتہ ملکوں کو بھگتنے پڑتے ہیں جن کا کاربن گیسوں کے اخراج میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

پی ایس ایل، کوئٹہ گلیڈی ایٹرز نے پشاور زلمی کو عبرتناک شکست دے دی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button