پاکستان

پاکستان پر75سال تک کس نے حکومت کی؟ فوج یا جمہوری نظام نے؟ انور مقصود نے بتا دیا

74 برس تک فوج نے سیاست سے بدپرہیزی کی' بدپرہیز ی کا مطلب ہے کہ بے اعتدالی، بے احتیاطی، عیاشی اور فضول خرچی ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا: انور مقصود

کراچی (مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستان پر 75سال تک کس نے حکومت کی ؟ فوج یا جمہوری نظام؟ انور مقصود نے عالمی اردود کانفرنس میں ایسا بیان داغ دیا کہ سب ہکے بھکے رہ گئے۔

تفصیلات کے مطابق انور مقصود کا کہنا تھا کہ سٹیج میں آنے سے پہلے شاہ صاحب نے مجھے کہا کہ آپ کے پاس 30 منٹ ہیں آپ نے اس دورانیہ میں پاکستان پر بولنا ہے سب کی تعریف کرنی ہے بلکہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی خاص طور پر تعریف کرنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی تعریف تو سب کر رہے ہیں فوجی ، ان کے دوست، محلے دار بھی عاصم منیر کی تعریف کرنے پر مجبور ہیں ، نیک شریف، بہادر ، ایماندار اور اپنے پیشے سے محبت ، وطن سے عزت اور پرچم کی قدر ۔ ان کا کہنا تھا کہ عاصم منیر کے ایک پڑوسی نے ٹیلی ویژن پر کہا کہ عاصم منیر میرے ساتھ گلی ڈنڈا کھیلتے تھے لیکن اب فرض آگیا ہے گلی پڑوسی کے ہاتھ میں جبکہ ڈنڈا آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے ہاتھ میں ہے۔

انور مقصود کا کہنا تھا کہ جنرل (ر) باجوہ نے اپنی الوداعی تقریب میں کہا تھا کہ فوج نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ سیاست سے پرہیز کرے گی یہ بہت اچھا فیصلہ ہے اس کا مطلب ہے کہ 74 برس تک فوج نے سیاست سے بدپرہیزی کی۔ بدپرہیز ی کا مطلب ہے کہ بے اعتدالی، بے احتیاطی، عیاشی اور فضول خرچی ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا ۔فوج ہماری ضرورت ہے کیونکہ ہمارے پڑوسی بہت خراب ہیں لیکن ہم بھی کچھ زیادہ اچھے نہیں ہیں اس لئے فوج کبھی سرحد کی طرف دیکھتی ہے تو کبھی اپنے ملک کی طرف اور پھر سوچتی ہے کہ میں ادھر جائوں یا اُدھر جائوں بڑی مشکل میں ہوں میں کدھر جائوں اور پھر ادھر آ جاتی ہے۔

انور مقصود کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کی 60 فیصد آبادی غریب ہے اور 40 فیصد آبادی فوج ہے۔ امیروں کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں وہ اپنے بچوں کو بھی مسلمان کروانے کے لئے لندن بھیجتے ہیں اور کہتے ہیں یہاں مسلمان ہونے کی سہولت نہیں ۔ بیروز گاری ، بدحالی ، مہنگائی، پریشانی، پشمانی اور اداسی ملک پر بادلوں کی طرح چھا گئی ہے ۔ کسی کو احساس ہی نہیں ہے کہ وہ اس ملک کے ساتھ کیا کر رہے ہیں۔ قرضہ مل جاتا ہے تو ایوان تالیوں سے گونج اٹھتا ہے اس کے باوجود احمد شاہ کا اسرار ہے کہ میں پاکستان پر بات کروں ، پاکستانی کہانی سنائوں ، حالات بدل گئے ہیں شاہ صاحب ،جو زبان پر دل کو نہیں اس کو فائدہ اور جو دل میں ہے وہ لا نہیں سکتے زبان پر ۔

ان کا کہنا تھا کہ 83 برس کی عمر میں کپڑے میںنے خود اپنی مرضی سے اتارے ہیں کچھ الٹا سیدھا بول کر اپنے کپڑے پنجاب پولیس سے نہیں اتروانا چاہتا۔ پاکستان 75کا ہوگیا میں پاکستان سے 8 برس بڑا ہوں، میری ان گنہگار آنکھوں نے پاکستان کو پروان چڑھتے کم اور پروان اترتے زیادہ دیکھا ہے۔ غریب غریب سے غریب تر ہو گئے ، امیر امیر سے امیر ترین ہو گئے، 14 اگست 1947ء نیا ملک نیا آسمان، خوبصورت سرزمین ،24 سال بعد آدھی زمین بنگالیوں نے واپس لے لی، آدھی زمین جو بچی تو وہ لوگوں نے خرید لی یا فروخت کر ڈالی، اب سر زمین میں سے زمین غائب ہو گئی ہے اور انگزیری والے سر بچ گئے ہیں جن کے پاس خریدی ہوئی زمین ہے۔ بیچارے غریب مجبوراً ان سے کہتے ہیں کہ سر زمین کہاں گئی، اس کے باوجود ”پاک سر زمین شاد باد ” سن کر خاموشی سے کھڑے ہو جاتے ہیں ، ”پرچم ستارہ و ہلال ” سے آنسو صاف کرتے ہیں اور اندھیروں میں گم ہو جاتے ہیں۔

انور مقصود نے یہ بھی کہا کہ کہانی پاکستان کی سنیں گے آپ ، قصہ میرا سنو گئے تو جاتی رہے گئی نیند، آرام چشم مت رکھو اس داستان سے تم ، یہ کہہ کر جو رویا تو لگا کہنے کمیر، سنتا نہیں میں ظلم رسیدوں کی کہانی، حکومت کو جو کام ہے وہ مجھ سے نہیں ہوگا، حکومت کا کام ہے لوگوں کو خوش رکھنا اور ہنستا ہوا رکھنا، حکومت نے عوام کو ہنستا ہوا تو رکھا ہے عوام وزیراعظم اور تمام وزیروں کے بیانات پر گھنٹوں ہنستے رہتے ہیں مگر خوش نہیں ہیں۔ پاکستان کی کہانی ایک فلم کی طرح ہے جو 75 سال سے چل رہی ہے ہدایتکار پنجاب، شوٹنگ بلوچستان میں ہوئی ہے۔ پس پردہ موسیقی آرمی کا بینڈ، فلم کا انٹرویل 1971ء میں ہوتا جب مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا، انٹرویل کے بعد فلم ایک ملی نغمہ سے شروع ہوتی ہے ”اے وطن کے سیجلے جوانوں ” اس کے بعد فلم کا ہیرو جو سندھی ہے وہ ایک بڑھائی کے پاس جاتا ہے اور کہتا ہے کہ ایک ایسا تختہ چاہیے جس کو الٹا نہ جائے ۔ بڑھائی ایک تختہ بنا کر دیتا ہے جو 6 فٹ چوڑا اور 4 فٹ لمبا ہے اس کے درمیان 3 فٹ اور اڑھائی فٹ کا سوراخ ہے بڑھائی کہتا ہے اس تختہ پر کوئی الٹ نہیں سکتا ، مگر اس تختے کے درمیان جو سوراخ ہے تم اس کے ذریعے نیچے جا سکتے ہو، اس منظر کے بعد آرمی بینڈ ”اے مرد مجاہد جاگ ذرااب وقت شہادت ہے آیا” بجتا ہوا گزر جاتا ہے ، فلم کے آخری منظر میں ایک آدمی امریکہ ، چین، برطانیہ، سعودی عرب ، یو اے ای سے پیسے مانگ رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ اگر ترکی سے قرضہ مل گیا تو قسم خدا کی آپ سب کے پیسے ہم واپس کر دیں گے ۔ ایک چھوٹا بچہ آتا ہے اور وہ آ کر ایک شعر پڑھتا ہے خدا سے مانگ جو کچھ مانگنا ہو اے مخلص ، یہی وہ در ہے کہ ذلت نہیں سوال کے بعد ” وہ آدمی بچے سے کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ڈالر کیسے بھیج سکتے ہیں بچہ کہتا ہے کہ پچھلے سیلاب سے بڑا سیلاب تو بھیج سکتے ہیں پھر آپ کے دامن ڈالروں کی بارش، اب صرف تباہی اور بربادی ہی آپ کی آمدنی کا ذریعہ بن سکتی ہے جتنی تباہی اتنی بہتری، بیٹے تم کوقیامت کی بات کر رہے ہو تو بچہ کہتا ہے محترم قیامت تو آ چکی ہے اس کی نشانیاں پتا ہے آپ کو جب برے لوگ اچھے لوگوں پر حکومت کرنے لگیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button