پاکستان

مخالفت کے باوجود پیپلز پارٹی نے وفاقی بجٹ پاس کروانے میں کردار کیوں ادا کیا؟ وجوہات سامنے آگئیں

دونوں کا ووٹ بینک مختلف ہونے سے مفادات کا ٹکراو فی الحال پیدا نہیں ہو رہا 'مشترکہ سیاسی حریف عمران خان کی وجہ سے ان دونوں بڑی جماعتوں کو ساتھ ساتھ چلنا پڑ رہا ہے

کراچی(کھوج نیوز) وفاقی بجٹ پاس کروانے کے لئے پاکستان پیپلز پارٹی نے شدید مخالفت کے باوجود بھی اس کو پاس کیوں کروایا؟ اس حوالے سے تمام وجوہات سامنے آگئی ہیں۔

تفصیلات کے مطابق پیپلز پارٹی نے جس طرح بجٹ سے متعلق پہلے ناراضی کا اظہار کیا اور پھر اس کی منظوری پر رضامند ہو گئی جسے بعض مبصرین سیاسی داو پیچ قرار دیتے ہیں۔ بعض تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اختلافات ہونے کے باوجود دونوں بڑی جماعتیں اس وقت ایک ساتھ کام کرنے پر مجبور ہیں۔ ان کے بقول، دونوں کا ووٹ بینک مختلف ہونے کی وجہ سے مفادات کا ٹکراو فی الحال پیدا نہیں ہو رہا تاہم اپنے مشترکہ سیاسی حریف عمران خان کی وجہ سے ان دونوں بڑی جماعتوں کو ساتھ ساتھ چلنا پڑ رہا ہے۔ اہم حکومتی اتحادی پاکستان پیپلز پارٹی نے 12 جون کو قومی اسمبلی میں بجٹ پیش ہونے کے موقعے پر اس کی مخالفت کی تھی۔ پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس سے واک آوٹ کیا تھا۔ لیکن بعد میں ڈپٹی وزیر اعظم اسحاق ڈار کی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات کے بعد اجلاس میں صرف ٹوکن شرکت ہی پر اکتفا کیا تھا۔

پیپلز پارٹی کی مرکزی ترجمان اور رکنِ قومی اسمبلی شازیہ مری کا کہنا ہے کہ پارٹی کی کئی تجاویز حکومت کی جانب سے فنانس بل میں شامل کرنے پر اس کی حمایت کا فیصلہ کیا گیا۔ ان تجاویز میں کئی اہم اشیا پر سیلز ٹیکس استثنا ختم کرنے کے فیصلے کو واپس لینا بھی شامل ہے۔ شاریہ مری کا کہنا تھا کہ دیگر تجاویز کے ساتھ سندھ میں مختلف پراجیکٹس پر وفاق کی جانب سے فنڈنگ بحال کرنے کے بعد ہی پارٹی نے مشاورت سے بجٹ کی حمایت کا فیصلہ کیا تاہم بعض معاشی اور سیاسی تجزیہ کار اس پر الگ رائے رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مثال کے طور پر حکومت نے دل کہ سرجری کے لیے ضروری آلات منگوانے پر بھی ٹیکس عائد کیا تھا جسے پیپلز پارٹی کی مخالفت کے باعث واپس لینا پڑا۔ ان کے بقول خیراتی اداروں کے لیے آلات کی خریداری یا درآمدات پر بھی ٹیکس عائد کیا گیا تھا جو واپس لیا گیا۔ جب کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے بجٹ میں بھی خاطر خواہ اضافہ کیا گیا ہے۔

اس وقت پارٹی رہنماؤں کا اصرار تھا کہ حکومت نے اتحادی ہونے کے باوجود انہیں کسی بجٹ اسکیم پر اعتماد میں نہیں لیا۔ اس دوران کئی بجٹ سیشنز میں پیپلز پارٹی کے محض چند اراکین ہی بجٹ اجلاس میں شریک ہوئے۔ اس دوران پیپلز پارٹی کی قیادت کی جانب سے صوبائی ترقیاتی اسکیمز بحال کرانے، پنجاب میں پاور شیئرنگ سمیت کئی امور پر مطالبات اور شکوہ شکایتوں کی بازگشت سنائی دیتی رہی تاہم کسی بھی اہم رہنما نے کھل کر کوئی بیان نہیں دیا۔ اسی اثنا میں 22 جون کو وزیرِ اعظم شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کی ایک ہی ملاقات کے بعد پیپلزپارٹی کی رائے تبدیل ہو گئی اور اس نے بجٹ کے حق میں ووٹ بھی دے دیا۔

معاشی مبصر شبر زیدی نے پیپلز پارٹی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی نے مسلم لیگ ن کے ساتھ سودے بازی کی اور اس کے بعد بھاری ٹیکسوں والا بجٹ ایوان سے منظور کرانے میں کردار ادا کیا۔ان کا کہنا ہے کہ بجٹ میں تقریبا ہر اس شعبے میں ٹیکسز کی بھرمار کر دی گئی ہے جس کا تعلق عوام کی اکثریت سے ہے مگر عوام کو ریلیف نہیں دیا گیا۔ شبر زیدی کے مطابق اس بجٹ کی کوئی سمت نہیں یے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ کسی معاشی ٹیم نے نہیں بلکہ چند جونئیر افسران نے بنایا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button