پاکستان

جنرل فیض حمید کا وکیل کون؟ کس نے کیس لینے سے انکار کیا؟ سزا کب اور اس کا طریقہ کار کیا ہوگا؟ کھوج نیوز حقائق سامنے لے آیا

جنرل فیض حمید کے کیس کا فیصلہ فروری کے مہینے میں آنے کا امکان ہے، اگر جرم ثابت ہو جاتا ہے تو ان کو کم سے کم عمر قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے : ذرائع کا دعویٰ

اسلام آباد(کھوج نیوز) جنرل فیض حمید کا وکیل کون ہے، کس نے کیس لینے سے انکار کیا؟ سزا کب اور اس کا طریقہ کار کیا ہوگا؟ کھوج نیوز حقائق سامنے لے آیا۔

تفصیلات کے مطابق کھوج نیوز ذرائع نے بتایا ہے کہ کوئی ملٹری یا جج ایڈووکیٹ جنرل جو برانچ جس کو جیک برانچ بھی کہا جاتا ہے اس میں جو ریٹائرڈ تھے ان میں کوئی بھی ان کا کیس لینے کو تیار نہیں تھے جس کی وجہ سے ان کے خاندان کو سویلین وکیل کرنا پڑا۔ ان کے کیس کی پیروی کرنے والے وکیل کا نام میاں علی اشفاق ہے ان کی ٹیم میں دو مزید وکلاء ہیں جو کہ جنرل فیض حمید کا دفاع کر رہے ہیں۔

ذرائع نے بتایا ہے کہ جنرل فیض حمید کے خلاف کیس کا فیصلہ فروری میں ہو جائے گا۔ جنرل فیض حمید پر جو چارجز لگائے گئے ہیں اس میں ایکسکیوز می آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے حوالے سے تین بنیادی طور کے اوپر چارجز ہوتے ہیں جو آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے متعلق ہوتے ہیں ان میں پہلا یہ ہے کہ آپ کے پاس کوئی ایسا ڈاکومنٹس یا کوئی ایسی معلومات ہیں جو آپ کی پوزیشن میں پائی گئی ہے جو کہ آپ اس کے اتھورائز نہیں ہیں یعنی آپ جب ریٹائر ہو جاتے ہیں تو آپ کسی بھی طرح کے آفیشل سیکریٹ ایکٹ جو ڈاکومنٹس ہیں وہ نہیں رکھ سکتے تو وہ جنرل فیض حمید اگر وہ تمام ڈاکومنٹس جنرل فیض حمید کے پاس پائے گئے ہیں تووہ اس کے حوالے سے ان کی جو آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی وائلیشن ہوسکتی ہے۔ ذرائع نے مزید بتایا ہے کہ دوسرا نمبر پر یہ ہے کہ اگر آپ کے کوئی انفارمیشن ہے یا کوئی ڈاکومنٹ ہے اور وہ آپ سے گم ہو گئے ہیں تو اس پر بھی آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی پر سزا ہو سکتی ہے ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ان دونوں صورتوں میں اگر جنرل فیض حمید کو اس الزام پر سزا ہوتی ہے تو ان کو کم سے کم عمر قید کی سزا ہو سکتی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button