پاکستان

پاکستان کا پانی روکنے کے لیے بھارت کو کتنے ڈیمز بنانے ہوں گے ؟کیا ایسا ممکن بھی ہے ؟ایک تفصیلی رپورٹ

پاکستان کا پانی روکنے کے لیے بھارت کو کم از کم بھاکڑا ننگل جیسے 22 بڑے ڈیم بنانے ہوں گے،اور ایسا کرنا ممکن نہیں:بھارتی ماہرین

اسلام آباد(کھوج نیوز)سند ھ طاس معاہدہ معطل کرنے کے چند دن بعد بھارت کے آبی وسائل کے وزیر سی آر پاٹیل نے اعلان کیا ہے کہ حکومت ایسی حکمتِ عملی بنا رہی ہے جس سے پاکستان کو ایک قطرہ پانی بھی نہ ملے۔ لیکن ماہرین کے مطابق یہ ہدف حاصل کرنے کے لیے بھارت کو کم از کم بھاکڑا ننگل جیسے 22 بڑے ڈیم بنانے ہوں گے۔

سند ھ طاس معاہدہ کے تحت مشرقی دریاؤں(ستلج، بیاس اور راوی)پر بھارت کو مکمل اختیار حاصل ہے، جبکہ مغربی دریاؤں(چناب، جہلم، اور سندھ)کا زیادہ تر پانی پاکستان کے لیے مختص ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، ہر سال مغربی دریاؤں سے اوسطا 136 ملین ایکڑ فٹ پانی بہتا ہے، جو اگر روک لیا جائے تو پورے جموں و کشمیر کو 13 فٹ پانی میں ڈوب سکتا ہے۔

اب تک بھارت ان دریاؤں پر اسٹوریج ڈیم نہیں بنا سکا کیونکہ معاہدے میں اجازت نہیں تھی۔ بھارت صرف رن آف دی ریور منصوبے بنا سکتا ہے جن میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش بہت کم ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر، پاکستان کے قریب واقع چھ بڑے آبی منصوبوں کی مجموعی گنجائش پورے سال کے پانی کے صرف 0.4 فیصد کو ذخیرہ کرنے کی ہے۔ جب تمام زیر تعمیر منصوبے مکمل ہو جائیں گے تو یہ صلاحیت 2 فیصد ہو جائے گی۔

ان منصوبوں میں رتلے، پکل دل، کوار اور کیرو شامل ہیں، جن پر کام 2021 اور 2022 میں شروع ہوا اور یہ اگلے سال مکمل ہوں گے۔ ان منصوبوں کے مکمل ہونے کے بعد بھارت کو خشک موسم (خاص طور پر ربیع کی فصل کے دوران)میں پاکستان کو پانی کے بہاؤ کے وقت پر اثر انداز ہونے کی طاقت حاصل ہو جائے گی۔

لیکن ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ ان علاقوں میں بڑے ڈیمز کی تعمیر ماحولیاتی اور معاشی خطرات سے خالی نہیں۔ جموں و کشمیر ایک قدرتی طور پر حساس علاقہ ہے جہاں زلزلے، لینڈ سلائیڈنگ، سیلاب اور گلیشیئر جھیلوں کے پھٹنے کے امکانات موجود ہیں۔ بھارتی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اسٹوریج ڈیم بنانے کا فیصلہ کیا جائے تو سب سے پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ اس کے نقصانات اور فوائد کیا ہوں گے، اور کیا یہ ہمارے لوگوں اور ماحول کے لیے فائدہ مند ہوں گے یا نہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ بھارت کو معاہدے کے مطابق کچھ حق حاصل ہیں، مگر پانی مکمل طور پر روکنا نہ صرف عملی طور پر مشکل ہے بلکہ ماحولیات اور بین الاقوامی تعلقات کے لیے بھی خطرناک ہو سکتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button