جسٹس سرفراز ڈوگر کا ٹرانسفر آئینی اور قانونی قرار،سپریم کورٹ آف پاکستان نے فیصلہ سنا دیا
عدالت نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے تینوں ججز کا ٹرانسفر درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ ججز ٹرانسفر کو نئی تقرری نہیں قرار دیا جاسکتا

اسلام آباد(کھوج نیوز)جسٹس سرفراز ڈوگر کا ٹرانسفر آئینی اور قانونی قرار،سپریم کورٹ آف پاکستان نے فیصلہ سنا دیا ،رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان نے ججز ٹرانسفر کیس کا محفوظ فیصلہ سنا دیا۔ اکثریتی فیصلے میں عدالت نے قرار دیا کہ جسٹس سردار سرفراز ڈوگر کا ٹرانسفر آئین و قانون کے مطابق ہے۔عدالت نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے تینوں ججز کا ٹرانسفر درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ ججز ٹرانسفر کو نئی تقرری نہیں قرار دیا جاسکتا۔عدالت نے ججز کی سنیارٹی کا معاملہ صدر پاکستان کو واپس ریمانڈ کردیا۔اکثریتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ججز کے تبادلے کے نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار نہیں دے رہے۔ صدر مملکت سنیارٹی کے معاملے کو جتنی جلد ممکن ہو طے کریں۔ جب تک صدر مملکت سنیارٹی طے نہیں کرتے، قائم مقام چیف جسٹس سردار سرفراز ڈوگر ہی امور سرانجام دیتے رہیں گے۔
اکثریتی فیصلہ سپریم کورٹ کے جسٹس محمد علی مظہر،جسٹس بلال شاہد بلال حسن اور جسٹس صلاح الدین پہنور نے دیا جب کہ جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شکیل احمد نے اکثریت سے اختلاف کیا۔قبل ازیں سپریم کورٹ نے دلائل مکمل ہونے کے بعد ججز ٹرانسفر کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ججز ٹرانسفر کیس کی سماعت کے دوران بانی پی ٹی آئی کے وکیل ادریس اشرف نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت آئین کے آرٹیکل کی ہم آہنگ تشریح کرے۔ آرٹیکل 200 اور آرٹیکل 175 میں ٹکرا ہے۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن کے پاس تبادلے کا کوئی اختیار نہیں، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ خالی جج کی سیٹ پر مستقل تبادلہ نہیں ہو سکتا ۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں سنیارٹی نمبر 3 کے جج کی انرولمنٹ اسلام آباد بار کونسل کی ہے۔
جسٹس نعیم افغان نے سماعت کے دوران استفسار کیا کہ کیا ماضی میں کسی جج کا آرٹیکل 200 کے تحت تبادلہ ہوا؟، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ماضی میں ججز ٹرانسفر کی کوئی مثال نہیں۔ ججز ٹرانسفر میں صدر اور وزیر اعظم کا کردار محدود ہے۔ ججز ٹرانسفر کے عمل میں چیف جسٹس صاحبان بھی شامل ہیں۔ ججز ٹرانسفر کے عمل میں بد نیتی منسوب نہیں کی جا سکتی۔جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ججز ٹرانسفر کا ایک پورا طریقہ آرٹیکل 200 میں دیا گیا ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزیر اعظم کی ایڈوائس اور بزنس رولز کیخلاف کوئی استدعا نہیں کی گئی۔وکیل منیر اے ملک نے عدالت کو بتایا کہ کبھی نہیں کہا تبادلہ پر آئے ججز ڈیپوٹیشنسٹ ہے، جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ کی درخواست میں ججز کو ڈیپوٹیشنسٹ لکھا گیا ہے۔ ججز کو ڈیپوٹیشنسٹ کیسے کہا جا سکتا ہے؟۔عدالت نے دلائل سننے کے بعد کارروائی مکمل کی اور کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا، جسے آج دوپہر دو بجے جاری کردیا گیا۔
واضح رہے کہ جسٹس سرفراز ڈوگر ،جسٹس محمد آصف اور جسٹس خادم حسین سومرو کا اسلام آباد ہائی کورٹ ٹرانسفر ہوا تھا۔ 3 ججز کے ٹرانسفر کیخلاف اسلام آباد ہائی کورٹ کے 5 ججوں نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔ٹرانسفر اور سنیارٹی کیخلاف جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس بابر ستار، جسٹس طارق جہانگیری نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ سپریم کورٹ سے رجوع کرنے والے 5 ہائی کورٹ ججز میں جسٹس سردار اعجاز اسحاق اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز بھی شامل ہیں۔یاد رہے کہ ججز ٹرانسفر اور سنیارٹی کیخلاف بانی پی ٹی آئی اور کراچی بار نے بھی درخواستیں دائر کی تھیں۔ججز ٹرانسفر اور سنیارٹی کیخلاف درخواستوں پر 19 سماعتیں ہوئیں، پہلی سماعت 17 اپریل کو ہوئی تھی جب کہ سپریم کورٹ میں 20 فروری کو درخواستیں دائر ہوئی تھیں۔