شوبز

ایک ایساگانا جسے سن کر 100 افراد نے اپنی جان لی

شو بز انڈسٹری کا ایک ایسا گانا جسے سن کر سو افراد نے خودکشی کی لیکن اس سب کے باوجو د اس گانے کو28 مختلف زبانوں میں ریکارڈ کیا گیا ہے

کراچی (شوبز ڈیسک)گانے فلم میںایک اہم جزو سمجھے جاتے ہیں۔ یہ نہ صرف دل و دماغ کو فرحت بخشتے ہیں بلکہ اکثر ماحول کو خوشگوار بھی بنا دیتے ہیں۔ لیکن کیا آپ یقین کریں گے کہ ایک گانا ایسا بھی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے تقریبا 100 افراد کو خودکشی پر مجبور کر دیا؟ اس گانے کو دنیا ہنگرین سوسائیڈ سانگ کے نام سے جانتی ہے۔

یہ واقعہ 1933 کا ہے جب ہنگری کے موسیقار ریزسو سیریش نے ایک گانا لکھا جس کا نام تھا گلومی سنڈے تھا۔ اس گانے کے بول انہوں نے اپنی محبوبہ کے لیے لکھے تھے جو انہیں چھوڑ کر جا چکی تھی۔ نغمے کے بول اس قدر افسردہ اور دل گرفتہ تھے کہ سننے والوں میں شدید مایوسی پھیلتی، حتی کہ کچھ لوگ خودکشی جیسا انتہائی قدم اٹھا لیتے۔ اسی وجہ سے اس گانے کو ہنگرین سوسائیڈ سانگ کہا جانے لگا۔

ابتدائی طور پر کئی گلوکاروں نے اس گانے کو گانے سے انکار کر دیا۔ تاہم، 1935 میں یہ گانا پہلی بار باضابطہ طور پر ریکارڈ اور ریلیز کیا گیا۔ ریلیز ہوتے ہی ہنگری میں خودکشی کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق، گانے کی ریلیز کے بعد کئی ایسے واقعات سامنے آئے جن میں خودکشی کے مقام پر یہی گانا بج رہا تھا۔

ابتدائی رپورٹس کے مطابق، اس گانے کی وجہ سے کم از کم 17 افراد نے اپنی جان لے لی تھی، تاہم بعد میں یہ تعداد تقریبا 100 تک پہنچ گئی۔ حالات اس قدر خراب ہو گئے کہ 1941 میں ہنگری حکومت نے اس گانے پر پابندی عائد کر دی۔

یہ پابندی 62 سال بعد، 2003 میں ہٹا لی گئی، لیکن تب تک کئی جانیں ضائع ہو چکی تھیں۔ سب سے چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ خود ریزسو سیریش نے بھی اپنی زندگی کا اختتام اسی دن کیا جس کا ذکر اس گانے میں کیا گیا تھا۔ انہوں نے پہلے منزل کی کھڑکی سے کود کر خودکشی کی کوشش کی، لیکن ہسپتال منتقل ہونے کے بعد انہوں نے ایک تار سے خود کو گلا گھونٹ کر مار دیا۔

اس افسوسناک پس منظر کے باوجود، گلومی سنڈے کو دنیا بھر کے 100 سے زائد گلوکاروں نے 28 مختلف زبانوں میں گایا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button