تحریر :شکیلہ فاطمہ
الیکشن کمیشن نے جنرل الیکشن میں ایک سے زیادہ نشستوں پر کامیابی کے نتیجے میں خالی ہونے والی نشستوں اور ان حلقوں جن میں کسی امیدوار کے فوت ہو جانے کیوجہ سے الیکشن نہیں ہو سکے تھے پر 21 اپریل 2024ء کو ضمنی الیکشن اور الیکشن کرانے کا پروگرام جاری کر دیا ہے۔ الیکشن کمیشن کے نوٹیفکیشن کے مطابق قومی اسمبلی کی 6 خیبر پختونخواہ اور بلوچستان اسمبلی کی دو دو سندھ اسمبلی کی ایک اور پنجاب اسمبلی کی بارہ نشستوں پر انتخابات ہونگے۔ آج کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کا آخری دن ہے۔ اس میں کافی دلچسپ صورتحال نظر آرہی ہے چند حلقوں کو چھوڑ کر پرانے امیدوار ہی قسمت آزمائی کر رہے ہیں جبکہ نشستیں خالی کرنے والوں نے اپنے خاندان سے کسی دوسرے کو ٹکٹ دلوا کر الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تحریک انصاف ایک بار پھر کشمکش کا شکار نظر آرہی ہے اس کے امیدوار بکھرے بکھرے نظر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر حماد اظہر جو تحریک انصاف کے عہدیدار ہیں انہوں نے حلقہ این اے 119 اور پی پی 164 لاہور سے اپنے کاغذات نامزدگی سنی اتحاد کونسل کے امیدوار کے طور پر جمع کروائے ہیں ۔ لیکن قانون کے مطابق کسی جماعت کا عہدیدار کسی دوسری سیاسی جماعت کا امیدوار نہیں بن سکتا اس لئے کل شام حماد اظہر نے بذریعہ ایکس تحریک انصاف کے عہدوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا ہے اگرچہ یہ کافی لیٹ ہو چکا ہے اور استعفیٰ منظور ہونے سے پہلے جانچ پڑتال کا عمل ہو جائے گا اور کاغذات نامزدگی مسترد ہو جائیں گے۔ اسی طرح عماد فاروق کے بھائی شہزاد فاروق نے مجلس وحدت المسلمین کی طرف سے کاغذات نامزدگی جمع کروائے ہیں اور وہ بھی این اے 119 سے امیدوار ہیں اسی طرح تحریک انصاف کے ایک اور امیدوار جو عدالتی مفرور ہیں اور جن پر 51 کے قریب مقدمات ہیں اور وہ اس وقت سپین میں ہیں انہوں بھی لاہور کے حلقہ این اے 119 سے کاغذات نامزدگی جمع کروائے ہیں لیکن اس بار انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ وہ کس جماعت کے امیدوار ہیں اور نہ ہی خود کو آزاد امیدوار قرار دیا ہے جبکہ ان کے والد گرامی جو اڈیالہ جیل میں گر کر چوٹیں کھائے ہوئے ہیں وہ گجرات سے عوامی نمائندگی کیلئے بیتاب ہیں اور مزے کی بات ہے کہ وہ تحریک انصاف کے صدر ہیں لیکن کسی جماعت کے ٹکٹ کی تلاش میں ہیں۔ اس بار بھی الیکشن کا بڑا معرکہ لاہور ہی میں ہوگا۔ اس کے بعد سندھ سے حلقہ این اے 207 سے صدر پاکستان آصف علی زرداری کی خالی کردہ نشست پر آصفہ بھٹو الیکشن لڑیں گی پیپلز پارٹی کا یہ ایک بہت اچھا فیصلہ ہے آصفہ بھٹو اپنی عمر سے بیس سال بڑی سیاستدان ہیں اور بینظیر کا مکمل عکس ہیں انکا قومی اسمبلی میں پہنچ جانا ایک اچھی بات ہوگی۔ خیبر پختونخواہ سے تحریک انصاف بمقابلہ تحریک انصاف الیکشن لڑے گی کچھ سنی تحریک کے ٹکٹ پر اور کچھ دیگر سیاسی جماعتوں اور آزاد حیثیت سے الیکشن میں ہونگے۔ مجموعی طور پر یہ ضمنی الیکشن ہماری سیاست کی آئندہ کی سمت کا بھی کسی حد تک تعین کریں گے۔ تحریک انصاف اس وقت تک مکمل بوکھلاہٹ کا شکار ہے اور ڈونلڈ لو کی طرف سے امریکی سازش کی تردید کے بعد مایوسی کا شکار بھی ہے لیکن ابھی تک اس کے ووٹر کو درست اور غلط کا اندازہ نہیں ہو رہا ۔ البتہ جو بات تحریک انصاف کیلئے تازہ ہوا کا جھونکا ہے وہ الیکشن میں بے ضابطگیوں کے حوالے سے امریکی بیان ہے اور اس بیان نے الیکشن کمیشن پر خاصا دباؤ ڈالا ہے اور عدالتی نظام کو بھی بے نقاب کیا ہے۔ الیکشن کمیشن بھی اس وقت افراتفری کا شکار ہے اور وہ اس متنازعہ الیکشن کروانے کا ذمہ دار بھی ہے تاہم پاکستان کو بھی امریکی الیکشن پر نظر رکھنی چاہیے اور اس پر اسی طرح پارلیمنٹ کی کمیٹی میں سماعت کرنا چاہیے تاکہ جوبائیڈن اور ٹرمپ کے آنے والے الیکشن کی شفافیت کے بارے پاکستانی عوام اور پاکستان کی رائے سے امریکہ کو آگاہ کیا جا سکے جیسے وہ ہمیں سمجھا رہے ہیں کیونکہ پچھلے دونوں الیکشن امریکہ میں دھاندلی کی زد میں رہے ہیں اور اس پر خود امریکہ کے اندر رد عمل آیا۔ میں بات کر رہی تھی پاکستان میں ضمنی الیکشن کی اور اس وقت چونکہ سینٹ کی 48 نشستوں پر بھی الیکشن ہو رہے ہیں جو 2 اپریل کو ہونگے تو امیدواروں کے نام کچھ گڈ مڈ ہو رہے ہیں وہی صنم جاوید ‘اعظم سواتی ‘شہزاد فاروق ‘حماد اظہر کچھ سینٹ اور کچھ اسمبلیوں کے امیدوار ہیں جو کسی سمت کا تعین کئے بغیر دوڑے چلے جا رہے ہیں لیکن سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ کیا وہ شخص جو قانون کااحترام نہیں کرتا اور خود کو عدالتوں کے سامنے پیش نہیں کرتا وہ کس طرح اسمبلیوں اور پارلیمنٹ میں عوامی نمائندگی کا دعویدار ہو سکتا ہے اور پھر اسمبلی میں بیٹھ کر قانون سازی کا اہل ہو سکتا ہے ؟ ذرا سوچئے گا ضرور۔