سانحہ 9 مئی ۔ کھلا ہےجھوٹ کا بازار آؤ سچ بولیں: تحریر : شکیلہ فاطمہ
تاریخ گواہ ہے جب بھی کسی ملک میں کوئی سیلیبرٹی یا کامیڈین کو اس ملک کا سربراہ بنایا گیا تو اس نے ہمیشہ غلط فیصلے کئے وہ امریکہ ہو ، یوکرین ہو یا پھر پاکستان ہو۔
9مئی 2023 کا دن پاکستان کی تاریخ میں ایک ایسا دن ہے جو کئی حوالوں سے ہماری تاریخ کا ایک نا خوشگوار حصہ بن چکا ہے۔ 9 مئی 2023 سے پہلے بھی پاکستانی تاریخ میں کئی تلخ واقعات و سانحات وقوع پذیر ہو چکے تھے لیکن سانحہ 9 مئی نے گذشتہ تمام سانحات کو پیچھے چھوڑ دیا۔ اور ریاست کو ایک ایسے چیلنج سے دوچار کر دیا جہاں ملکی سلامتی اور اداروں کا وجود براہ راست خطرے میں پڑ گیا۔ اس سانحہ سے پہلے ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ پر الزام لگایا جاتا تھا کہ وہ مولوی تمیز الدین کیس سے اس وقت کے چیف جسٹس شیخ منیر سے لیکر ججز پر اثرانداز ہوتی ہے اور سیاست میں مداخلت کر کے اپنی مرضی کے بت تراشتی ہے اور کبھی کبھی خود عنان اقتدار سنبھال لیتی ہے۔ ایسے واقعات اور سانحات کی ایک لمبی فہرست ہے لیکن ان تمام واقعات اور سانحات میں ایک قدر مشترک ہوتی تھی اور وہ تھی عدلیہ کا بھرپور ساتھ جسکی تاریخ جسٹس منیر سے شروع ہوتی ہے۔
ججز اس تبدیلی سے بھرپور فائدہ اٹھاتے تھے اور اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ دیتے تھے ان کے غیر قانونی اقدامات کو کبھی نظریہ ضرورت اور کبھی واقعاتی حقائق کا لبادے میں لپیٹ کر اندھے انصاف کا ترازو بلند کیا جاتا تھا۔ اور اسٹیبلشمنٹ اس میں ہمیشہ کامران و کامیاب رہتی تھی۔ لیکن مشرف دور کے اختتام پر اسٹیبلشمنٹ نے پہلی بار ایک غیر سیاسی اور سیلیبرٹی کو کامیاب سیاست دان بنانے کا عملی آغاز کیا جسکی بنیاد 1996 میں رکھی جا چکی تھی۔ اس پراجیکٹ پر بہت محنت کی گئی، لاہور میں کامیاب جلسہ کرایا گیا پھر اسلام آباد میں ایک طویل دھرنا کرایا گیا جس میں اس سیلیبرٹی نے ایمپائر کی انگلی اٹھنے کا اشارہ دے کر سب پر واضح کر دیا کہ اسکو کس نے لانچ کیا ہے۔ پھر فیض آباد دھرنا کرایا گیا اور تاریخ میں پہلی بار کسی اسٹیبلشمنٹ کے حاضر سروس افسر نے بطور گواہ معاہدہ کروایا اور دستخط کئے۔ لیکن اس وقت بھی عدلیہ کا تعاون حاصل رہا۔ پھر عدالت عظمی میں ایک کیس پانامہ پیپرز کو لیکر ایک شخص کو نشانہ بنایا گیا اور ایک ادیب نما جج نے فیصلے کو افسانوی انداز میں تحریر فرما کر اس وقت کے وزیراعظم کو گھر بھیج دیا۔
اس سے پہلے بھی عدالت عالیہ نے سیشن عدالت بن کر ایک وزیراعظم کو پھانسی کی سزا سنا دی اور عدالت عظمی نے اسکی تصدیق کر دی یہ پھانسی کی سزا تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 کے جرم میں نہیں تھی بلکہ قتل کے مشورے میں سنائی گئی اور اب چوالیس سال کے بعد عدالت عظمی نے تسلیم کر لیا کہ وہ غلط تھا ۔ لیکن اس کے سوا کچھ نہیں کیونکہ اس وقت کے کچھ ججز مر چکے ہیں اور کچھ کا پتہ نہیں ہے۔ لیکن یہ تسلیم کر لیا گیا کہ اس وقت ججز نے انصاف نہیں بلکہ انصاف کا قتل کیا تھا اور ایسے قتل کئی بار کئیگئے لیکن شاید باقی تمام انصاف کے قتل عدالت تسلیم کرنے سے گریزاں ہے لیکن عالمی رینکنگ میں ہماری عدلیہ دنیا کی 148 ملکوں کی عدلیہ سے نیچے ہے جسکا مطلب ہے کہ یہاں انصاف دور دور تک نہیں ہے۔ اگرچہ تلخ ہے لیکن سچ یہی ہے۔ میں واپس سانحہ 9 مئی کیطرف آتی ہوں۔ اس پراجیکٹ کی آبیاری جاری رہی اور بانی پی ٹی آئی کی مختلف سیف ہاسز میں گھنٹوں تربیت کا عمل جاری رہا۔ اور پھر بالآخر 2018 کے الیکشن میں دھاندلی کا طوفان برپا کر کے ، رزلٹ مینجمنٹ سسٹم کو بٹھا کر اور عدلیہ کے تعاون کو بروئے کار لا کر اس سیلیبرٹی کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کا وزیر اعظم بنا دیا گیا۔
تاریخ گواہ ہے جب بھی کسی ملک میں کوئی سیلیبرٹی یا کامیڈین کو اس ملک کا سربراہ بنایا گیا تو اس نے ہمیشہ غلط فیصلے کئے وہ امریکہ ہو ، یوکرین ہو یا پھر پاکستان ہو۔ لیکن اس تاریخی حقیقت کہ سیلیبرٹی اچھے مجمع باز تو ہوتے ہیں لیکن اچھے سیاست دان کبھی نہیں ہو سکتے، کو پس پشت ڈال کر ایک سیلیبرٹی کو سیاستدان کا روپ دیکر مملکت خداداد کا وزیراعظم بنادیا گیا۔ یہ پہلی دفعہ تھا کہ اس طرح تراشا گیا سیاستدان کا پس منظر کسی سیاسی خاندان سے نہیں تھا اور نہ ہی وہ تاجر تھا بلکہ ایک محض ایک کھلاڑی تھا۔ جب وہ مسند اقتدار پر براجمان ہوا تو اس نے تمام غیر سیاسی رنگ دکھانے شروع کر دیئے، سو دن کا پروگرام، ریاست مدینہ اور میں سب جانتا ہوں میں مغرب اور یورپ کو وہاں کے شہریوں سے زیادہ جانتا ہوں اور میں مذہب کو بھی سب سے زیادہ جانتا ہوں اس لئے میں ایک سپرمین ہوں کیونکہ اکثر خواتین جو اس کے قریب تھیں وہ کہتی تھیں کہ تم سپرمین ہو اور اس نے اسے تسلیم کرتے ہوئے پوری قوم بلکہ پوری دنیا پر مسلط کرنے کی کوشش کرنا شروع کر دی۔ یہ سیلیبرٹی جس نے 2014 میں چین کے وزیراعظم کے انتہائی اہم دورہ کو دھرنے کی وجہ سے روکا۔
اس نے برسر اقتدار آکر امریکہ یاترا کے بعد سی پیک جیسے گیم چینجر منصوبے کو لپیٹ کر الماری میں رکھ دیا، نامعلوم چہرے بیرون ملک سے منگوائے جنکو پاکستان میں کوئی جانتا نہیں تھا انکو قوم پر مسلط کر دیا گیا اسٹیبلشمنٹ کیلئے بھی یہ ایک غیر متوقع اور عجیب و غریب حرکتیں تھیں۔ ان میں سوات پر قبضہ کرنے والوں کو واپس پاکستان لانا، سعودی ولی عہد کے بارے غیر مہذب گفتگو کرنا جس کے بعد انہوں نے اپنا طیارہ واپس بلا لیا اور ہمارا وزیراعظم سڑک کنارے اتر کر کھڑے تھے ۔ ٹرمپ کے ٹریپ میں آکر بڑھکیں مارنا بھی اس کے غیر سیاسی ہونے کا واضح ثبوت تھا۔ اس سے ایران ناراض ہو گیا اور کشمیری بھی ناراض ہو گئے۔ پھر سعودی عرب کے خلاف ملائشیا میں ایک نئی اسلامی ملکوں کی تنظیم بنانے کی کوشش اور عین وقت پر اس سے فرار جس سے ہمارے تمام دوست ممالک اور اسلامی دوست پاکستان سے دور ہو گئے ہماری معیشت زبوں حالی کا شکار ہو گئی اور ریاست کا وجود خطرے میں پڑ گیا۔ اس صورتحال کے تناظر میں اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ نے ایک پیج کا تاثر پیج پھاڑ کر کر دیا اور دیگر سیاسی قوتوں کو سیاسی اور آئینی انداز میں جدوجہد کرنے کیلئے گرین سگنل دے دیا جب اس سیلیبرٹی کو پتہ چلا تو وہ انتہائی سیخ پا ہوا اور اس نے اسٹیبلشمنٹ سے بدلہ لینے کی ٹھان لی اور الزام یہ لگایا کہ چلو مان لیا اسٹیبلشمنٹ نے اسکو نہیں ہٹایا لیکن اسکو نہ ہٹانے دینا بھی تو ان کی ذمہ داری تھی کیونکہ پہلے کونسا وہ آئینی طور پر منتخب ہوا تھا اس وقت بھی اس نے صرف ستر نشستیں جیتی تھیں اور باقی تحفہ میں دیکر مسند اقتدار پر بٹھایا گیا تھا۔ اس نے سوشل میڈیا وار شروع کردی اور کچھ وفاداروں کو ساتھ ملا کے ایک گھنانا کھیل کھیلنے کی منصوبہ بندی شروع کر دی اس نے تو پارلیمانی زبان کو بھی کرکٹ کی زبان میں بدل دیا۔
اور بالآخر 9 مئی 2023 کا سورج نکلا ۔ اس دوران عدلیہ میں ججز بھی کئی کلاسوں میں تقسیم ہو چکے تھے، پاکستانی جج تو شاید کوئی ہو ، گرین کارڈ ہولڈر جج، متوالے جج، جیالے جج اور من مرضی والے جج کی کیٹیگریز وجود میں آ چکی تھیں اور اسٹیبلشمنٹ کا زور عدلیہ میں کمزور پڑ چکا تھا۔ اس دن عمران خان ایک مقدمے میں گرفتار ہوا اور پھر منصوبے کے مطابق پاکستان کی فوج پر حملہ کر دیا گیا اس تراشے ہوئے سیاستدان کے وزیروں اور وفاداروں نے کارکنوں کو احکامات پہنچانا شروع کر دیئے اور پھر دو سے تین گھنٹوں کے اندر اندر لاہور میں جناح ہاوس یعنی کورکمانڈر کا گھر، عسکری ٹاور، سرگودھا میں شہدا کی یادگاروں، راولپنڈی میں جی ایچ کیو، میانوالی میں ائیر بیس پر حملہ، دیر میں پاکستانی جھنڈے اور فوجی چھاونی پر حملہ، چکدرہ جو ایف ڈبلیو او کے زیر انتظام ہے کو آگ لگانا،مردان، کوہاٹ اور دیگر کئی شہروں میں فوجی تنصیبات پر حملے شروع کر دیئے گئے ہر طرف آگ لگا دی گئی ایک جنگ کا عالم تھا اور تمام ٹیلی ویژن چینلز کی سکرینوں پر پاکستان کی فوجی تنصیبات کی جلتی تصویریں دکھائی جارہی تھیں اور یوں لگ رہا تھا کسی دشمن ملک نے حملہ کر دیا ہے۔ لیکن یہ کوئی دشمن ملک نہیں تھا یہ تو وہ تراشا ہوا سیاستدان اور اس کے شرپسند تھے جسے سیلیبرٹی سے سیاستدان بنایا گیا تھا۔
اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں تراشا ہوا یہ بت اب بھگوان کا روپ دھار چکا ہے اور اپنے ہی خالق کے خلاف بغاوت بلکہ یدھ پر اتر آیا تھا۔ اب اسٹیبلشمنٹ کے پاس پہلی بار الزام لگانے کا موقع ہاتھ آیا تھا کیونکہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ کسی سیاستدان خواہ وہ جیسے ہی بنایا گیا ہو اس نے پاکستان کی فوج اور فوجی تنصیبات پر حملہ کیا تھا۔ یہ فوج پر حملہ نہیں تھا بلکہ یہ پاکستان پر حملہ تھا۔ اسکو بنایا جیسے بھی گیا ہو لیکن اسکا یہ فعل ریاست کے خلاف بغاوت اور جنگ تھی جو پاکستان میں چشم فلک نے پہلی بار دیکھی تھی اور جسکا کوئی پاکستانی تو کیا پاکستان کو جاننے والا غیر ملکی بھی نہیں کر سکتا تھا۔ رات تک یوں لگتا تھا جیسے پاکستان کو کاری ضرب لگ چکی تھی۔ یہ سانحہ ناقابل قبول اور گھنانا تھا قابل نفرت تھا اور پاکستان کے شہریوں کو تحفظ کا احساس دلانے اور یہ باور کرانے کیلئے لازمی تھا اس حملے کے تمام مجرمان کو فوری سخت سے سخت سزا دی جاتی تاکہ 24 کروڑ عوام اور سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوتا کہ پاکستان ایک فعال اور مضبوط ریاست ہے اور ایسے جرائم کے ارتکاب کا دوبارہ کوئی تصور بھی نہ کرتا۔ لیکن۔۔۔لیکن۔۔ملزم گرفتار ہوئے اور اب کی بار عدلیہ نے مبینہ طور پر ملزمان کو بچانے کا کردار ادا کیا۔ اس حملے کو ایک سال گذر گیا آج اسکی سانحہ کی بدنما سالگرہ ہے لیکن اس حملے میں ملوث کسی مجرم کو سزا نہیں ہوسکی ۔
عدالت عظمی نے حکم صادر کیا فوجی عدالتیں سماعت نہیں کر سکتی پھر حکم ہوا سماعت کرو لیکن فیصلہ مت کرنا پہلے ہم دیکھیں گے کہیں انسانی حقوق تو پامال نہیں ہو رہے۔ ارے قاضیان وقت کیا 24 کروڑ کے کوئی حقوق نہیں صرف چند شرپسندوں کے حقوق کی حفاظت کرنا لازم ہے کیا ملک کا وجود لازم نہیں ہے کیا اس ملک کو کوئی حق نہیں۔ لیکن کیا کریں عدالت نے تو آئین ہی دوبارہ لکھنا شروع کر دیا۔ روزانہ اس سیلیبرٹی اور اسکی بیوی جس پر غیر اسلامی نکاح کا مقدمہ ہے کے کیس سنے اور سنائے جا رہے ہیں لیکن پاکستان پر حملہ کرنے والوں کو نہ ہی کسی سول عدالت سے سزا ہوئی اور فوجی عدالت کو فیصلے سے روک دیا گیا۔ اور اس طرح یوں لگتا ہے یہ بھیانک سانحہ آج پھر ہوگیا ہے۔ میری التجا تو احمد فراز نے پہلے ہی کر دی تھی۔کہ "منصف ہو اگر تم تو کب انصاف کرو گے،مجرم ہیں اگر ہم تو سزا کیوں نہیں دیتے۔ رہزن ہو تو حاضر ہے متاع دل و جاں بھی،رہبر ہو تو منزل کا پتہ کیوں نہیں دیتے۔ "