مودی سرکار کنفیوژن کا شکار، شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس میں عدم شرکت، امریکا یا روس ، بھارت کس کا ساتھ دے گا؟
ایس سی او کو کنیکٹیوٹی منصوبوں کے تناظر میں خود مختاری اور علاقائی سالمیت کے احترام اور غیر امتیازی تجارتی حقوق جیسے مسائل کو حل کرنا چاہیے

نئی دہلی (مانیٹرنگ ڈیسک) مودی سرکار کنفیوژن کا شکار، شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس میں عدم شرکت، امریکا یا روس ، بھارت کس کا ساتھ دے گا؟اس حوالے سے تمام تفصیلات سامنے آگئی ہیں۔
انٹرنیشنل میڈیا کے مطابق نئی دہلی قزاقستان کے دارالحکومت آستانہ میں ‘شنگھائی تعاون تنظیم(ایس سی او) کا دو روزہ اجلاس ختم ہو گیا ہے۔ اس اجلاس کی ایک اہم بات یہ رہی کہ بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی نے اس میں شرکت نہیں کی۔ اس سے قبل پانچ اجلاسوں میں مودی بذات خود شریک ہوئے تھے۔ اس بار بھارت کی جانب سے وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نے شرکت کی جنہوں نے اجلاس کے آخری روز اپنے چینی ہم منصب وانگ ای سے ملاقات کی۔
مبصرین کے مطابق بھارتی وزیرِ اعظم ایس سی او اجلاس میں شرکت کرتے رہے ہیں۔ ان مواقع پر الگ سے دیگر سربراہانِ مملکت سے ان کی ملاقات ہوتی تھی جس میں باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا جاتا تھا۔اس سے قبل یہ اعلان کیا گیا تھا کہ نریندر مودی اجلاس میں شرکت کریں گے۔ اخبار ‘ہندوستان ٹائمز’ کے مطابق بھارت سے ایک سیکیورٹی ٹیم نے ان کے دورے کے سلسلے میں آستانہ کا دورہ بھی کیا تھا۔
سفارتی و صحافتی حلقوں میں یہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ وزیرِ اعظم مودی نے اس اجلاس میں شرکت کیوں نہیں کی؟ کیا اس فورم میں بھارت کی دلچسپی کم ہو رہی ہے؟ یا وہ چین کے ساتھ جاری سرحدی تنازعے کی وجہ سے اس کے روبرو نہیں ہونا چاہتے یا پھر ان پر امریکہ کی جانب سے کوئی دباؤ ہے؟بھارتی حکومت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وزیرِ اعظم کی عدم شرکت کی وجہ اسی موقع پر بھارت میں پارلیمانی اجلاس کا منعقد ہونا ہے لیکن بعض تجزیہ کار اس سے متفق نہیں ہیں۔ ان کا استدلال ہے کہ آستانہ نئی دہلی سے بہت زیادہ دور نہیں ہے اور پارلیمانی اجلاس کو کوئی بحران بھی درپیش نہیں تھا۔ مزید یہ کہ وزیرِ اعظم مودی آٹھ سے 10 جولائی تک روس اور آسٹریلیا کا دورہ کرنے والے ہیں تو پھر وہ آستانہ کیوں نہیں جا سکتے تھے؟بعض ماہرین دعوی کرتے ہیں کہ ایس سی او کے تعلق سے بھارت کی پالیسی تبدیل ہو رہی ہے۔ 2023 میں بھارت کو ایس سی او کی میزبانی کرنی تھی۔ اس نے اجلاس کے انعقاد کی مکمل تیاری کر لی تھی لیکن آخری لمحوں میں اس اجلاس کو ورچوئل کر دیا گیا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق بھارت کے اس فیصلے سے اس کی پالیسی میں بدلا کا اشارہ ملتا ہے۔
وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ایس سی او کو کنیکٹیوٹی منصوبوں کے تناظر میں خود مختاری اور علاقائی سالمیت کے احترام اور غیر امتیازی تجارتی حقوق جیسے مسائل کو حل کرنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ علاقائی سالمیت کا باہمی احترام، داخلی امور میں عدم مداخلت اور طاقت کا عدم استعمال اس بلاک کی بنیاد ہونی چاہیے۔