نگرنگرسے

معاشی بحران ، کاروباری برادری کس دہانے پرپہنچ گئی؟ گیلپ سروے کی رپورٹ

کراچی(سٹاف رپورٹر، آن لائن)گیلپ بزنس کانفیڈنس انڈیکس رپورٹ 2023کی پہلی سہ ماہی میں کاروباری اداروں کے مالکان کے ساتھ کئے گئے سروے کے مطابق کاروباری برادری موجودہ اور مستقبل کے حالات کے بارے میں خطرناک حد تک پریشان ہے اور کاروباری حالات اور امکانات کے بارے میں ان کی مایوسی میں اضافہ ہوگیاہے۔

سروے کے مطابق گذشتہ سال کے سیاسی عدم استحکام نے مختلف اقتصادی بحرانوں کو جنم دیا اور کاروباری عدم اعتماد میں اضافہ ہوا۔واضح رہے کہ بزنس کانفیڈنس انڈیکس ایک اہم بیرومیٹر ہے جو کسی بھی ملک میں کاروباری برادری کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے اور اسے پوری دنیا میں پالیسی ساز ادارے استعمال کرتے ہیں ۔یہ سروے 2023کی پہلی سہ ماہی میں پاکستان بھر کے تقریباً520کاروباری اداروں کے ساتھ کیا گیا۔گیلپ پاکستان کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اور گیلپ پاکستان بزنس کانفیڈنس انڈیکس پاکستان کے چیف آرکیٹیکٹ بلال اعجاز گیلانی کے مطابق پاکستان میں کاروباری اداروں کومتعددمشکلات کا سامنا ہے ، تاریخی مہنگائی نے صارفین کی قوتِ خرید کو کم کردیاہے، سیاسی نظام میں استحکام کامکمل فقدان اور بڑھتے ہو ڈیفالٹ کے خطرات نہ صرف کاروباری برادری بلکہ ان کے صارفین کیلئے بھی مجموعی طور پر مایوسی کا باعث ہیں۔گیلپ بزنس کانفیڈنس انڈیکس رپورٹ Q1,2023کے کلیدی نتائج کے مطابق66فیصد کاروباری ا داروں کوخراب یا بدترحالات کا سامنا ہے، بہت زیادہ خراب کاروباری حالات کا سامنا کرنے والوں اداروں کی تعداد میں 7فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس سہ ماہی میں گیلپ پاکستان بزنس سیچویشن نیٹ اسکور میں معمولی کمی دیکھی گئی۔

سروے کے مطابق سندھ اورخیبرپختونخواہ کے تقریباً70فیصد اور پنجاب کے 64فیصد کاروباری اداروں کو خراب حالات کا سامنا ہے ۔زیادہ تر کاروباری سیکٹرز نے خراب حالات کی نشاندہی کی ہے۔ تعمیرات، کاسمیٹکس اور صنعتی مشینوں/آلات کے شعبے میں اچھے اور برے حالات کے درمیان 50-50کا فرق تھا۔اس سہ ماہی میں پچھلے سہ ماہی کے مقابلے میں 7فیصد کاروباری اداروں کے خیال میں مستقبل میں حالات مزید خراب ہوں گے۔ 2023کی پہلی سہ ماہی میں 61فیصد کاروباری اداروں کو مستقبل کے بارے میں منفی توقعات ہیں جبکہ 38فیصد کو توقع ہے کہ چیزیں بہتر ہوں گی۔نیٹ فیوچر بزنس کانفیڈنس اسکور پچھلی سہ ماہی کے منفی11فیصد کے مقابلے میں مزید نیچے گرکر منفی22فیصد ہوگیا ہے۔ملک کی سمت کے بارے میں کاروباری برادری کے منفی تاثرات گذشتہ سہ ماہی سے مطابقت رکھتے ہیں ۔سروے میں 90فیصد کاروباری اداروں کے مطابق ملک غلط سمت میں جا رہا ہے۔2022کی چوتھی سہ ماہی کی طرح، افراطِ زر اس سہ ماہی میں بھی سب سے زیادہ اجاگرکیا جانے والا مسئلہ ہے۔45فیصد کاروباری اداروں کے مطابق حکومت کو اس طرف توجہ کرنی چاہیے ۔پچھلی سہ ماہی کے مقابلے میں 10فیصدزائد ادارے چاہتے ہیں کہ حکومت کرنسی کی قدر میں ہونے والی کمی کو دور کرنے میں مدد کرے لیکن 7فیصد سے کم کے خیال میں حکومت کو یوٹیلیٹی کی قیمتوں میں ریلیف فراہم کرنا چاہیے۔

سروے کے مطابق نصف سے زائد(57فیصد)نے پچھلی سہ ماہی میں اپنے ملازمین کو نوکریوں سے فارغ نہیں کیالیکن 38فیصد اداروں نے اپنی افرادی قوت میں کمی کی ہے۔سروے کے مطابق58فیصد کاروباری اداروں نے پچھلے سہ ماہی کے دوران اپنی اوسط پیداوار ی قیمتوںمیں اضافہ کیا ہے۔ان میںسے 45فیصد نے اپنی قیمتوںمیں 20سے 50فیصد تک اضافہ کیا ہے۔سروے کے 72فیصد کاروباری ادارے پاکستان کے ممکنہ ڈیفالٹ کی وجہ سے پریشان ہیںان میںسے نصف(49فیصد)نے نمایاں طور پرتشویش کا اظہار کیاہے جبکہ 17فیصد جواب دہندگان بالکل بھی پریشان نہیں۔سروے میں شامل 44فیصد کاروباری اداروں نے لوڈ شیڈنگ میں اضافے کی نشاندہی کی جو پچھلی سہ ماہی کے مقابلے میں 28فیصد کم ہے۔لوڈ شیڈنگ کی نشاندہی کرنے والے اداروں میں سے 73فیصد کوروزانہ 3سے 4گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کا سامنا ہے۔

قومی سلامتی کمیٹی اجلاس، فواد چوہدری کا یوٹرن، حکومتی تعریفوں کی انتہاء کر دی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button