پاکستان

الیکشن ہونا ہیں تو اب وہ 90 روزمیں تو نہیں ہوسکتے،چیف جسٹس کے اہم ریمارکس

90 روز میں عام انتخابات کے انعقاد سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 3 رکنی بینچ کررہا ہے

اسلام آباد(کھوج نیوز) 90 روز میں عام انتخابات کے انعقاد سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 3 رکنی بینچ کررہا ہے، جس میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللّٰہ بھی شامل ہیں۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عابد زبیری سے مکالمہ کرتے ہوئے چیف جسٹس قاضی فائزعیسی کا کہنا تھا کہ یہ ایک ارجنٹ معاملہ ہونا چاہیے تھا، عابد زبیری بولے؛ ایڈووکیٹ آن ریکارڈ کو جلد سماعت کی درخواست دی تھی، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بروقت درخواست مقرر ہوتی تو ابھی تک فیصلہ ہوچکا ہوتا۔

عابد زبیری نے بتایا کہ درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ الیکشن کمیشن کو 90 روز میں انتخابات یقینی بنانے کا حکم دیا جائے اور مشترکہ مفادات کونسل کا مردم شماری شائع کرنے کا آرڈر کالعدم قرار دیا جائے، چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ مردم شماری کب شروع اور ختم ہوئی، عابد زبیری کی جانب سے لاعلمی کا اظہار کرنے پر چیہف جسٹس بولے؛ آپ آرٹیکل 19 کے تحت ایک خط لکھ کر پوچھ لیتے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے دریافت کیا کہ مردم شماری کا تعلق کیا انتخابات سے ہے، مردم شماری کے لیے آئین کا مینڈیٹ کیا ہے۔ عابد زبیری نے عدالت کو بتایا کہ مشترکہ مفادات کونسل کی صرف پالیسی بنانے کا ذکر ہے، چیف جسٹس بولے؛ لگتا ہے مردم شماری 18 ماہ پہلے ہی شروع ہوئی ہوگی، کیا مردم شماری آئینی ضرورت ہے، جس کا جواب عابد زبیری نے اثبات میں دیا۔

عدالتی استفسار پر عابد زبیری نے بتایا کہ اس سے قبل مردم شماری 2017 میں ہوئی تھی، جس پر چیف جسٹس بولے؛ اس میں تو لکھا تھا کہ وہ ایک عبوری مردم شماری تھی، کیا اس کے بعد کوئی حتمی مردم شماری بھی ہوئی، کیا اس مردم شماری پر حتمی ہونے کا کوئی ٹھپہ لگا، اگر 2017 والی مردم شماری فائنل نہیں ہوئی تو پھر فرق آ جائے گا۔

جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ اگر موجودہ مردم شماری نہ مانی جائے تو انتخابات 2017 والی مردم شماری پر ہوں گے، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ  2017 والی مردم شماری کو صرف 2018 والے انتخابات کے لیے استعمال کرنے کے لیے کہا تھا، اگر مان لیں موجودہ مردم شماری کالعدم ہوگئی تو آپ کی استدعا کیا ہو گی، کیا آپ پھر دوبارہ مردم شماری کا کہیں گے یا پرانی پر انتخابات کی استدعا کریں گے۔

عابد زبیری کا پرانے فیصلے کا حوالہ دینے پر چیف جسٹس کا اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ ہم ابھی اپ کا کیس سمجھے نہیں آپ فیصلوں پر آ گئے۔ ’اگر سب کچھ پرانے فیصلوں میں لکھا ہے تو اپ دلائل ہی نہ دیں، آپ نے کسی آئینی شق کا حوالہ نہیں دیا، آئینی دلائل دیں جذباتی نہیں، اگراب الیکشن ہونا ہیں تو وہ 90 روز میں تو نہیں ہوسکتے۔‘

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے عابد زبیری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ اب بھی 90 روز میں انتخابات والی استدعا پر دلائل دیں گے، نگراں حکومت آئینی ہوتی ہے آپ نے غیر آئینی لکھا ہے، جس پر عابد زبیری بولے؛ ہم نے استدعا کی ہے کہ دو نگران وزرااعلی کی مشترکہ مفادات کونسل میں شرکت کو غیر آئینی قرار دیا جائے۔

چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ ہم آپ سے پوچھ رہے ہیں کہ کیا آپ 2017 والی مردم شماری پرانتخابات چاہتے ہیں، آپ ہاں یا نہیں تو کہیں، ہم اگرمگرپر نہیں چلیں گے، آپ آئینی درخواست لائے ہیں، آپ کو ایک پوزیشن لینا ہوگی، جسٹس اطہر من اللہ بولے؛ آپ اس مردم شماری میں پڑیں گے تو الیکشن مزید التواء کا شکار ہوسکتے ہیں۔

جس پر چیف جسٹس بولے؛ مائی لارڈ نے بالکل ٹھیک کہا آپ کی درخواست کا یہ نتیجہ نکل سکتا ہے، یہ بھی دیکھ لیجیے گا آپ نے کوئی جلد سماعت کی درخواست دی یا  نہیں، ہمارے ریکارڈ میں ایسا نہیں ہے۔ عدالت نے سماعت میں آدھے گھنٹے کا وقفہ کردیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button