پاکستان

ملک کی ”قومی بیماری” کیا ہے؟ سہیل وڑائچ نے تشخیص کر دی

اختلاف کو جرم بنانا، قومی بیماری کے مترادف ہے, معاملہ صرف عدلیہ میں ایجنسیوں کی مداخلت کا نہیں ہے بلکہ ہر ایک شعبہ کی دوسرے میں مداخلت کا ہے: سہیل وڑائچ

لاہور(کھوج نیوز) ملک کی ”قومی بیماری” کیا ہے؟ اس حوالے سے سینئر صحافی و کالم نگار سہیل وڑائچ نے اپنے کالم میں اس بیماری کی تشخیص کر کے ملک بھر ایک نئی فضا پیدا کر دی ہے۔

تفصیلات کے مطابق سینئر صحافی و کالم نگار سہیل وڑائچ نے اپنے کالم میں لکھا کہ مسئلہ سیاسی ہو یا عدالتی، صحافتی ہو یا انتظامی، ہمارے ہاں تقسیم اس قدر زیادہ ہے کہ فورا یہ جائزہ لیا جاتا ہے کہ یہ تیرے جج ہیں یا میرے جج ہیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججوں نے ریاستی مداخلت پر احتجاج کیا تو ایک بار پھر تضادستان کی تقسیم واضح ہو گئی۔ یہ جائزہ لیا جانے لگا کہ یہ تیرے جج ہیں یا میرے جج؟ حالانکہ میرے، تیرے کو چھوڑ کر انہیں ہمارے جج ہی کہنا، سوچنا اور لکھنا چاہیے۔ یہی تقسیم صحافیوں کے بارے میں بھی اپنالی گئی ہے۔ انصافیوں نے کچھ کو میرے صحافی اور کچھ کو تیرے صحافی بنا رکھا ہے۔ میرے صحافی جھوٹ، پراپیگنڈا اور فیک نیوز بھی دیں تو واہ واہ اور تیرے صحافی سچ بھی لکھیں تو لفافے۔ یہی حال سیاست دانوں نے بیوروکریسی کا بنا رکھا ہے میرے افسر اور تیرے افسر کی تقسیم ایسی ہے کہ جو نئی حکومت آتی ہے وہ ماضی میں تعینات افسروں کو اپنا دشمن سمجھتی ہے اور اپنے پسندیدہ افسروں کو تعینات کر دیتی ہے۔ بدقسمتی سے جرنیلوں کے بارے میں بھی یہی رویہ ہے کہ ایک زمانے میں انصافی جنرل باجوہ کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے تھے آج کل ان پر الزام لگاتے نہیں تھکتے۔ نونی بھی ججوں، جرنیلوں، افسروں اور صحافیوں کے بارے میں اسی افراط و تفریط کا شکار ہیں، جب تک تضادستان میں یہ تقسیم رہے گی یہاں بہتری نہیں آئے گی ہم سب کو دل بڑا کرنا چاہیے کہ کوئی جج، افسر، جرنیل یا صحافی ہمارے خلاف فیصلہ کر دے یا کچھ لکھ دے تو اسے بھی قبول کرنا چاہیے۔ معاشرے اختلاف کو قبول کرکے زندہ رہتے ہیں مگر اختلاف کو جرم بنانا، قومی بیماری کے مترادف ہے، یاد رکھیے کل کے دشمن آج کے دوست ہوتے ہیں اور کل کے دوست آج کے دشمن بھی ہوسکتے ہیں، اس لئے کسی بھی شخص، چاہے وہ جج ہو یا جرنیل ،صحافی ہو یا افسر، کے بارے میں فیصلہ کرنے سے پہلے اسے غلطی کا مارجن دیں ہر ایک کو بے ایمان، بے انصاف اور بکاو مال قرارنہ دے دیں، ہو سکتا ہے کہ اس کی ایماندارانہ رائے ہی آپ کے خلاف ہو ۔6 ججوں کی شکایت کو دیکھیں یہ نہ دیکھیں کہ وہ تیرے جج ہیں یا میرے؟ ان کی شکایت کا ازالہ اور تفتیش ہونی چاہیے نہ کہ ہم ان کے ماضی کو کھنگالنا شروع کردیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button