پاکستان

 ڈکٹیٹرز نےہمیشہ افغانوں کو عالمی طاقتوں کیلئے؟حامد میرسنسنی خیزحقائق منظرعام لےآئے

حامد میر نے لکھا ہے کہ ایک دفعہ پھر پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں تلخی پیدا ہو چکی ہے۔یہ کوئی نئی بات نہیں

اسلام آباد ( ویب ڈیسک ) ڈکٹیٹرز نےہمیشہ افغانوں کو عالمی طاقتوں کیلئے؟حامد میرسنسنی خیزحقائق منظرعام لےآئے،ایک دفعہ پھر پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں تلخی پیدا ہو چکی ہے،  جب بھی  تعلقات خراب ہوتے ہیں تو کچھ لوگ پوری کوشش کرتے ہیں کہ دونوں کو لڑا دیا جائے۔تاریخ یہ بتاتی ہے کہ پاکستان میں سیاسی حکومتوں کے دور میں افغانستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کی گئی لیکن  ڈکٹیٹرز نے ہمیشہ افغانوں کو عالمی طاقتوں کیلئے ایندھن بنانے کی کوشش کی۔ مشرف کا دور پاک افغان تعلقا ت کے حوالے سے بدترین دور تھ، کس نے تحریک طالبان پاکستان کو جنم دیا اور خود کش حملے کیسے شروع ہوئے ؟سینئرصحافی و تجزیہ کا ر حامد میر نے اہم تفصیلات شیئر کر دیں ۔

شائع ہونیوالے بلاگ بعنوان "پاکستان، افغانستان اور غزہ” میں حامد میر نے لکھا ہے کہ ایک دفعہ پھر پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں تلخی پیدا ہو چکی ہے۔یہ کوئی نئی بات نہیں 30ستمبر 1947ء کو افغانستان دنیا کا واحد ملک تھا جس نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کی مخالفت کی لیکن کچھ دنوں کے بعد اس مخالفت سے دستبردار ہو گیا۔ جب بھی ان دونوں ہمسایہ ممالک کے تعلقات خراب ہوتے ہیں تو کچھ لوگ پوری کوشش کرتے ہیں کہ دونوں کوایک دوسرے سے لڑا دیا جائے لیکن تمام ترسازشوں کے باوجود انہیں ایک دوسرے کے مدمقابل نہیں لایا جا سکا۔یہ خاکسار کئی مرتبہ یاد دلا چکا ہے کہ شاعر مشرق علامہ اقبال نے افغانستان کو ایشیاء کا دل قرار دیا تھا۔علامہ اقبال کے کلام میں جگہ جگہ افغانوں اور جدید افغانستان کے بانی احمد شاہ ابدالی سے محبت کا اظہار ملتا ہے ۔افغانستان کے حکمران ظاہر شاہ نے 1938ء میں علامہ اقبال کے مزار کی تعمیر کیلئے سرخ پتھر بھجوایا۔

اپنے بلاگ میں حامد میر نے مزید لکھا کہ ظاہر شاہ کے دور میں دو واقعات نے پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کو خراب کیا۔پہلا واقعہ اقوام متحدہ میں افغانستان کی طرف سے پاکستان کی مخالفت تھا۔دوسرا واقعہ شمالی وزیرستان میں برطانوی حکومت کے خلاف مزاحمت کرنے والے قبائلی رہنما فقیر ایپی کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش تھی۔فقیر ایپی کو پاکستانی فوج کیخلاف لڑنے کیلئے فنڈز اور اسلحہ کابل میں بھارتی سفارتخانہ دیتا تھا۔ بھارتی حکومت کو یہ شکایت تھی کہ ایک افغان عالم دین ملا شور بازار کے حکم پر افغانستان اور پاکستان کے قبائلیوں نے ریاست جموں و کشمیر میں بھارتی فوج کیخلاف لڑائی کیلئے لشکر کشی کی ۔ پاکستانی حکومت نے فقیر ایپی کی غلط فہمی دور کرنے کیلئے سب سے پہلے تو اپنی فوج کو برطانوی افسروں سے پاک کیا اور پھر مسجد اقصیٰ کے امام مفتی امین الحسینی کو پاکستان بلایا۔مفتی امین الحسینی 22مارچ 1951ء کو وانا گئے اور قبائل کی قیادت اور پاکستانی حکومت میں معاملات طے کرائے۔پھر وہ کابل بھی گئے اور ظاہر شاہ کو سمجھایا کہ پاکستان سے مت لڑو۔جب مفتی اعظم فلسطین کی کوششوں سے پاکستان اور افغانستان میں تعلقات بہتر ہوئے تو 16اکتوبر 1951ء کو ایک افغان سید اکبر کے ذریعے پاکستان کے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں قتل کروادیا گیا۔سید اکبر کا تعلق برطانوی انٹیلی جینس سے تھا۔

 حامد میر نے ۔مزید لکھا کہ دونوں ممالک میں غلط فہمیاں قائم رہیں تاہم 1965ء اور 1971ءکی پاک بھارت جنگ میں افغانستان نے پاکستان کے خلاف کوئی نیا محاذ نہ کھولا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں حیات محمد خان شیر پاؤکے قتل کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں کشیدگی بڑھ گئی اور پھر آئی جی ایف سی میجر جنرل نصیر اللہ خان بابر نے گلبدین حکمت یار اور احمد شاہ مسعود سمیت کئی باغی افغان رہنماؤں کو سردار داؤد کی حکومت کیخلاف استعمال کرنا شروع کیا۔ بھٹو نے اپنی کتاب’’ اگر مجھے قتل کر دیا گیا‘‘ میں لکھا ہے کہ جون 1976ء میں سردار داؤد نے انہیں کابل بلایا اور اگست 1976ء میں وہ راولپنڈی آئے دونوں ممالک میں طے پایا کہ افغانستان ڈیورنڈ لائن کو مستقل سرحد تسلیم کریگااورپاکستان ولی خان سمیت نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کے ان تمام رہنماؤں کو رہا کر دیگا جن پر حیدرآباد سازش کیس کے تحت مقدمہ چل رہا تھا ۔دریں اثنا 1977ء میں پاکستان میں مارشل لاء لگ گیا۔ جنرل ضیاء نے جلد بازی میں ڈیورنڈلائن کو مستقل سرحد تسلیم کرائے بغیر ہی نیپ کی قیادت کو رہا کرا دیا تاکہ انہیں بھٹو کیخلاف استعمال کیا جاسکے ۔بعدازاں بھٹو کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا اور سردار داؤد بھی قتل ہو گئے۔ افغانستان میں روسی فوج داخل ہوگئی تو جنرل ضیاء نے پاکستان میں پہلے سے موجود گلبدین حکمت یار اور احمد شاہ مسعود کو روسی فوج کیخلاف استعمال کرنا شروع کردیا۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ پاکستان میں سیاسی حکومتوں کے دور میں افغانستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کی گئی لیکن  ڈکٹیٹرز نے ہمیشہ افغانوں کو عالمی طاقتوں کیلئے ایندھن بنانے کی کوشش کی۔ مشرف کا دور پاک افغان تعلقا ت کے حوالے سے بدترین دور تھا ۔ مشرف کی پالیسیوں نے تحریک طالبان پاکستان کو جنم دیا اور پاکستان میں خودکش حملے شروع ہوئے ۔

 آخر میں حامد میر نے لکھا کہ موجودہ نگران حکومت نے اکتوبر 2023ء میں غیر قانونی افغان مہاجرین کو صرف ایک ماہ کے اندر پاکستان چھوڑنے کا حکم دیا۔اس حکم نے پاکستان اور افغانستان میں بہت سی غلط فہمیاں پیدا کیں۔ پاکستان میں قانون نافذ کرنیوالے اداروں نے ان افغانوں کو بھی خوب تنگ کیا جن کے پاس تمام دستاویزات موجود تھیں۔بظاہر افغان مہاجرین کو واپس بھجوانے کی وجہ یہی نظر آتی ہے کہ مہاجرین میں موجود کچھ لوگ پاکستان کے اندر دہشت گردی میں ملوث ہیں اور بعض ایسے بھی ہیں جو بھارتی خفیہ اداروں کے ساتھ مل کر پاکستان میں ٹارگٹ کلنگ کر رہے ہیں لیکن جس بھونڈے انداز میں صرف ایک ماہ کے اندر افغان مہاجرین کو واپس بھجوانے کی کوشش کی گئی اس نے دونوں ممالک کے مشترکہ دشمنوں کا کام آسان کیا اور وہ دونوں طرف اختلافات کی آگ پر مزید تیل ڈال رہے ہیں۔ پاکستان اورافغانستان کو ایک دوسرے کی خودمختاری اور آزادی کا تحفظ کرنا چاہیے کیونکہ دونوں کی سلامتی ایک دوسرے کی سلامتی سے مشروط ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button