پاکستان

کیا پی ڈی ایم کی ہنڈیا بیچ چوراہے میں پھوٹنے والی ہے؟ تہلکہ خیز خبر آگئی

کوئی درجن بھر سیاسی جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم کے مشترکہ حریف عمران خان کی پارٹی کو بڑی حد تک زیر کیا جا چکا ہے۔ اب سارے جھگڑے ''مال غنیمت کی تقسیم پر ہو رہے ہیں

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) کیا پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی ہنڈیا بیچ چوراہے میں پھوٹنے والی ہے؟ اس حوالہ سے سیاسی مبصرین نے تہلکہ خیز خبر سنا کر تھرتھرلی مچا دی۔

تفصیلات کے مطابق سیاسی مبصرین کا کہنا تھا کہ کوئی درجن بھر سیاسی جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم کے مشترکہ حریف عمران خان کی پارٹی کو بڑی حد تک زیر کیا جا چکا ہے۔ اب سارے جھگڑے ”مال غنیمت کی تقسیم پر ہو رہے ہیں۔ سینئر تجزیہ کار سلمان عابد کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم میں بڑھنے والے اختلافات حکومتی اتحاد کے لیڈروں کے بیانات سے بھی ظاہر ہو رہے ہیں۔ ان کے مطابق اتحاد میں شامل دو بڑی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی کو ایک دوسرے پر اعتماد نہیں ہے، ”دونوں مستقبل میں اپنی اپنی حکومت بنانے کے لیے تگ و دو کر رہی ہیں۔ دونوں اپنا وزیراعظم لانے کی متمنی ہیں۔ پیپلز پارٹی بلاول یا زرداری کو وزیراعظم دیکھنا چاہتی ہے جبکہ مسلم لیگ ن پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں اپنی مقبولیت کے باعث اپنے آپ کو بڑی سیاسی پارٹی سمجھتے ہوئے وزارت عظمی پر اپنا حق جتاتی ہے۔

پیپلز پارٹی کے ایک بڑے رہنما نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ عمران خان کی پارٹی کے تتر بتر ہونے کے بعد پی ٹی آئی کے مخلص ووٹرز پیپلز پارٹی یا ن لیگ کو ووٹ دینے کی بجائے گھر بیٹھنے کو ترجیح دیں گے، ”اس طرح الیکشن کا ‘ٹرن اوور بہت کم ہو گا اور الیکٹیبلز اور آزاد امیدوار بڑی تعداد میں جیتیں گے۔ ان کے ساتھ جوڑ توڑ کی مہارت زرداری کے پاس ہے، وہ واحد سیاسی لیڈر ہیں، جو سندھ سے درجنوں سیٹیں یقینی طور پر حاصل کرکے ہی حمایت حاصل کرنے نکلیں گے۔ ان کے بقول بلوچستان اور کے پی سے بھی پیپلز پارٹی سیٹیں جیت سکتی ہے اور اسٹیبلشمنٹ نواز شریف کے مقابلے میں آصف زرداری کے ساتھ زیادہ بہتر محسوس کرے گی اس لیے پیپلز پارٹی اگلے انتخابات کو امید بھری نظروں سے دیکھ رہی ہے۔ مسلم لیگ ن کو اکثریت ملنے پر صدر کون ہو گا؟ حکومتی سیاسی اتحاد اس بارے میں بھی اتقاق رائے قائم کرنے میں ناکام ہو چکا ہے۔ آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن دونوں اس سلسلے میں پیشگی یقین دہانی چاہتے ہیں جبکہ ن لیگ دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔

سلمان عابد کے بقول ن لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں کی خواہش ہے کہ اگلا الیکشن جیتنے کے لیے نگران سیٹ اپ میں ان کے زیادہ سے زیادہ حامی شامل کروائے جائیں اور صوبائی سیٹ اپ میں الیکشن سے پہلے اپنی مرضی کی تقرریاں کروائی جائیں، ”پاکستان پیپلز پارٹی نے پنجاب میں اہم لیڈروں کے مقابلے میں ن لیگ کے امیدوار نہ کھڑے کرنے کی متمنی ہے اس کے جواب میں ن لیگ نے سندھ سے دس سیٹوں کا مطالبہ کر دیا ہے، جسے پیپلز پارٹی ماننے کو تیار نہیں ہے۔ اسی طرح پنجاب کی وزارت اعلی کے بارے میں بھی دونوں جماعتوں کے مابین اختلافات ہیں۔ چند دن پہلے جب سابق صدر آصف زرداری نے لاہور میں ڈیرہ جمایا ہوا تھا۔ ان کے قیام کے دوران لاہور کی سڑکوں پر دو مرتبہ پیپلز پارٹی کے پرچم لگائے گئے لیکن انتظامیہ کچھ ہی دیر بعد پرچم ہٹوا دیے۔ آصف زرداری پی ٹی آئی سے نکلنے والے الیکٹیبلز کو اپنی پارٹی میں لانے کے لیے کوششیں کر رہے تھے لیکن پر اسرار رابطوں کے بعد وہ استحکام پاکستان پارٹی کی طرف چلے گئے، جو آج کل ن لیگ کے ساتھ مل کر الیکشن لڑنے کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔

تجزیہ کار جاوید فارووقی کے بقول مسلم لیگ ن کو خوف ہے کہ عوامی مقبولیت رکھنے والے عمران خان کو آنے والے دنوں میں ”سپیس ملنے کی صورت میں کہیں پیپلز پارٹی اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد بنا کر الیکشن نہ جیت جائے جبکہ دوسری طرف پیپلز پارٹی شہباز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کی بڑھتی ہوئی قربت کو شک اور تشویش کی نظروں سے دیکھ رہی ہے۔

یہ تاثر بھی عام ہے کہ پی ڈی ایم کے اتحاد میں شامل چھوٹی جماعتیں بھی شدید پریشان ہیں۔ تجزیہ کار سلمان عابد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ تاثر بالکل درست ہے کہ پی ڈی ایم میں شامل چھوٹی جماعتیں یہ سمجھ رہی ہیں کہ انہیں نظر انداز کیا جا رہا ہے اور دو بڑی جماعتیں ہی بندر بانٹ کرکے بڑے فیصلے خود سے کر رہی ہیں، ”ایم کیو ایم سندھ حکومت سے خوش نہیں۔ اے این پی خیبر پختون خواہ میں جمعیت العلمائے اسلام (ف) کی حکومتی پالیسیوں پر نالاں ہیں۔ حال ہی میں جے یو آئی ف کے ایک وزیر نے اخبار میں اشتہار شائع کروا کر نام لیے بغیر اتحادی جماعتوں کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ پی ڈی ایم کے اتحاد میں ہی نہیں پارٹیوں کے اندر بھی اختلافات نمایاں ہوتے جا رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن میں شہباز شریف اور ان کے ساتھی ایک طرح سوچ رہے ہیں دوسری طرف نواز شریف اور مریم نواز کے حمایتی ہیں۔ حمزہ شہباز شریف جس طریقے سے کارنر کیے جا چکے ہیں ان کے لیے اس کو آسانی سے ہضم کرنا ممکن نہیں ہے۔

تجزیہ کار خالد محمود رسول نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پی ڈی ایم میں شامل کئی جماعتیں کسی اشارے پر مجبوری کے تحت اکٹھی ہوئی تھیں۔ یہ ساری زندگی ایک دوسرے کے ساتھ لڑتی رہی ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ان کا ووٹ بینک ان کے متفرق نظریات کے ساتھ جڑا ہوا ہے، ”وہ کیسے ایک دوسرے کی الیکشن مہم میں حمایت کر سکیں گی۔ ان کے خیال میں الیکشن کے دوران ان اختلافات میں شدت آ سکتی ہے، ”ان کا دشمن ایک تھا وہ خوف کی وجہ سے اپنی بقا کے لیے اکٹھے ہو گئے تھے اب ان کے پاس اکٹھا رہنے کا کوئی ٹھوس جواز بھی نہیں ہے۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ ان سیاسی جماعتوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اصل فیصلوں کا اختیار ان کے پاس نہیں ہے، ”اس بار بھی الیکشن نامی پراسس کے ذریعے اسی طرح لوگ برسراقتدار آئیں گے، جس طرح ماضی میں آ تے رہے ہیں۔ لیکن عمران خان کو زبردستی الیکشن سے باہر رکھنے پر الیکشن کی ساکھ پر سوال اٹھیں گے۔

تجزیہ کار جاوید فارووقی کہتے ہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے بڑی چالاکی کے ساتھ وہی وزارتیں لی تھیں، جن کا تعلق براہ راست عوام سے نہیں، ”سارے اقتصادی فیصلے کرنے والی وزارتیں مسلم لیگ ن کے پاس تھیں، جن کو اب مہنگائی لوڈ شیڈنگ اور دیگر مسائل کا ذمہ دار سمجھا جا رہا ہے۔ سلمان عابد کا اس پر یہ کہنا ہے کہ اسی لیے پیپلز پارٹی مسلم لیگ ن کی وفاقی حکومت کے فیصلوں کا بوجھ اٹھانے کو تیار نہیں ہے، ”وہ الیکشن مہم میں اپنی کارکردگی بیان کر کے اپنے آپ کو عوام کو ریلیف نہ دے سکنے والی حکومت کے ساتھ کھڑا کرنے سے گریز کریں گے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button