پاکستان

انتخابات ہوں گے یا نہیں؟ نواز اسٹیبلشمنٹ مفاہمت کہاں تک جائیگی؟ حفیظ اللہ نیازی بول پڑے

پچھلی 7 دہائیوں سے، کئی وطنی سیاستدان مختلف موقعوں پر دشمنوں کے ہاتھوں استعمال ہوئے، کچھ کے طرزِ سیاست نے ملک کو نقصان بھی پہنچایا : حفیظ اللہ نیازی

لاہور (کھوج نیوز) معاملہ مٹی پاو یا دھاک بٹھانے کا نہیں ہے،مملکت منہ کے بل اوندھی پڑی ہے۔ بظاہر جو تدبیریں مستحکم، وقت آنے پر الٹی پڑ سکتی ہیں۔ سینئر تجزیہ کار و کالم نگار حفیظ اللہ نیازی نے خدشات کا اظہار کر دیا ۔

تفصیلات کے مطابق سینئر صحافی حفیظ اللہ نیازی کا کہنا تھا کہ وطن عزیز بدترین سیاسی خلفشار کی گرفت میں، ایک سوال چار سو،اگر الیکشن ہو گئے تو اگلا طرزِ حکومت کیسا ہوگا؟ عمران خان دور جیسا جہاں عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ ایک صفحہ پر جبکہ اختیارات و اقتدار 60 فیصد اسٹیبلشمنٹ کے پاس یا شہباز شریف حکومت جیسا، جہاں 80 فیصد اقتدار اسٹیبلشمنٹ کے پاس تھا یا پھر آج کی نگراںحکومت سیاہ و سپید کی کلی مالک اسٹیبلشمنٹ ہے۔بالفرض محال اگر الیکشن ہو بھی گئے تو اسٹیبلشمنٹ اب تک کار جہاں کو اس حد تک دراز کر چکی ہے کہ اختیارات و اقتدار کمبل بن کر چمٹے رہیں گے۔ اس بات کا قوی امکان موجود کہ مستقبل کی نئی حقیقتیں ہمیں انتخابات سے کوسوں دور نہ لے جائیں؟

حفیظ اللہ نیازی نے کہا کہ پچھلی 7 دہائیوں سے، کئی وطنی سیاستدان مختلف موقعوں پر دشمنوں کے ہاتھوں استعمال ہوئے، کچھ کے طرزِ سیاست نے ملک کو نقصان بھی پہنچایا ۔ یہ بات حتمی کہ جس کسی نے قومی سیاست کے کوچہ میں قدم رنجا فرمایا، لبالب محب ِ وطن تھا۔ اکثر موقعوں پر اسٹیبلشمنٹ سے ٹکراو ضرور رہا، پاکستان سے کوئی بیر نہ تھا ۔ گو مشرقی پاکستان ایک خونریز جنگ کے بعد علیحدہ ہوا، حقیقت سے انکار نہیں کہ آل انڈیا مسلم لیگ سے لیکر وجودِ پاکستان، بنگالی مسلمانوں کی انتھک محنت کا ہی ثمر تھا ۔50 کی دہائی میں اسٹیبلشمنٹ جوں ہی مضبوط ہوئی ، اپنے تسلط کو مستحکم کرنے کی ٹھانی۔ کچھ سیاستدان کھلونا بنے اور کچھ معتوب ٹھہرے، راندہ درگاہ بنا دیئے گئے ۔سیاسی عدم استحکام کا بنظر غائرجائزہ لیں تو ایک اضافی عنصر وطنی انتشار کی آگ جو شعلہ جوالہ بن چکا ہے۔ آج قوم (SADIST) بن چکی ہے ، نفسیاتی ذہنی خلل میں مبتلا ہے ۔ 24 کروڑ 60 لاکھ نفوس میں عدم برداشت اور بدلہ میں تجاوز انکا اوڑھنا بچھونا بن چکا ہے۔ 7 دہائیوں سے جاری اسٹیبلشمنٹ اور سیاست کی پر تشدد سیاسی کشمکش ،مملکت کی چولیں ہلا چکی ہے۔ صاحب فکر و نظر تھک چکے ہیں۔ ایک لڑائی تھمتی نہیں کہ مزید بھیانک لڑائی کا آغاز ہو جاتا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ معاملہ مٹی پاو یا دھاک بٹھانے کا نہیں ہے۔ تدبیر، فہم و فراست معاملہ فہمی چاہیے کہ مملکت منہ کے بل اوندھی پڑی ہے۔ بظاہر جو تدبیریں مستحکم، وقت آنے پر الٹی پڑ سکتی ہیں۔ 75سال سے جاری بلی اور چوہے کا کھیل، ایک بار پھر خطرناک مرحلے میں ہے۔ سیاست بمقابلہ اسٹیبلشمنٹ، آج چوتھی بڑی لڑائی لڑی جا ری ہے ، اس سے پہلے3 لڑائیاں لڑی جا چکی ہیں ۔ ایک میں اسٹیبلشمنٹ ہاری، دوسری میں سیاست کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ، تیسری میں بظاہر اسٹیبلشمنٹ جیتی حقیقتا سیاست کی وقتی جاں بخشی نے اسکو فائدہ پہنچایا۔ میرا خدشہ ،چوتھی لڑائی میں دونوں فریق ہارنے کو ہیں۔ آج دونوں فریق یہ سمجھ ر ہے ہیں کہ حتمی جیت اسکی ہے ۔ میرا ڈر، موجودہ لڑائی نے دونوں فریقوں کو گھائل رکھنا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button