پاکستان

بیک وقت انتخابات ، سپریم کورٹ کے مؤقف نے سیاسی حلقوں میں کھلبلی مچ گئی

ایک ہی روز انتخابات کی تاریخ پر اتفاق رائے ہونا چاہیے، اسمبلی توڑنے پربھی بجٹ کیلئے آئین 4 ماہ کا وقت دیتا ہے ،چیف جسٹس عمر عطاء بندیال

اسلام آباد(کورٹ رپورٹر، آن لائن) سپریم کورٹ آف پاکستان میں ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابا ت سے متعلق درخواستوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے کہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ معاملہ سیاسی عمل پر چھوڑا جائے مذاکرات کیس میں صرف سہولت کاری کرنا چاہتے ہیں، ایک ہی روز انتخابات کی تاریخ پر اتفاق رائے ہونا چاہیے، اسمبلی توڑنے پربھی بجٹ کیلئے آئین 4 ماہ کا وقت دیتا ہے ،مذاکرات ناکام ہوئے تو عدالت 14 مئی کے فیصلے کولے کر بیٹھی نہیں رہے گی ۔

جمعہ کے روز سپریم کورٹ آف پاکستان میں ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کرنے سے متعلق درخواستوں پر سماعت مکمل ہو گئی ۔چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے موقع پر حکمران جماعتو ں کے کونسل کی طرف سے مذاکراتی عمل کے زریعے انتخابات کے حوالے سے موجود بحران کو حل کرانے کیلئے ایک دفعہ پھر یقین دہانی کرائی گئی ، پی ٹی آئی کے کونسل کی طرف سے مذاکراتی ٹیم میں وزیر اعظم شہباز شریف اور عمران خان کو شامل کرنے کا مشورہ سامنے آیا، عدالت عظمیٰ نے خود کو سیاسی عمل سے الگ قرار دیتے ہوئے قرار دیا کہ عدالت صرف آئین و قانون پر عم درآمد چاہتی ہے۔سیاسی جماعتیں مل بیٹھ کر معاملہ حل کرنا چاہیں تورکاوٹ نہیں بنیں گے ،مذاکرات ناکام ہوئے تو عدالت 14 مئی کے فیصلے کولے کر بیٹھی نہیں رہے گی۔ آئین کے مطابق اپنے فیصلے پر عمل کرانے کیلیے آئین استعمال کرسکتے ہیں ۔افسوسناک ہے کہ حکومتی سائیڈ سے ایک طرف عدالت میں ایک بات کہی جاتی ہے جبکہ پارلیمان میں جا کر وہیں سیاسی جماعتیں دوسرا موقف رکھتے ہیں۔آج کی سماعت کو مناسب حکم جاری کیا جائے گا۔ چیف جسٹس آف پاکستا ن نے دوران سماعت ریمارکس میں کہا کہ ہم بھی کچھ کہنا چاہتے ہیں، عدالت میں ابھی مسئلہ آئینی ہے، سیاسی نہیں، عدالت سیاسی معاملہ سیاسی جماعتوں پر چھوڑتی ہے. چیف جسٹس نے پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق نائیک سے پوچھا کہ یہ بتائیں کہ آئی ایم ایف معاہدہ اور ٹریڈ پالیسی کی منظوری کیوں ضروری ہے؟ اس پر وکیل فاروق نائیک نے بتایا کہ بجٹ کیلئے آئی ایم ایف کا قرض ملنا ضروری ہے. اسمبلیاں نہ ہوئیں تو بجٹ منظور نہیں ہوسکے گا. پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں توڑی نہ گئی ہوتیں تو بحران نہ آتا، بحران کی وجہ سے عدالت کا وقت بھی ضائع ہورہا ہے، اسمبلیاں توڑنے سے عدالت پر بوجھ بھی پڑرہا ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آئی ایم ایف قرضہ سرکاری فنڈزکے ذخائر میں استعمال ہوگا یا قرضوں کی ادائیگی میں؟ اس پر فاروق نائیک نے کہا کہ یہ جواب وزیر خزانہ دے سکتے ہیں. جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اسمبلی توڑنے پربھی بجٹ کے لیے آئین 4 ماہ کا وقت دیتا ہے، اخبارمیں پڑھا کہ آئی ایم ایف کے پیکج کے بعد دوست ممالک تعاون کریں گے. تحریک انصاف نے بجٹ کی اہمیت کو تسلیم کیا یا رد کیا ہے؟ آئین میں انتخابات کے لیے 90 دن کی حد سے کوئی انکار نہیں کرسکتا، یہ عوامی اہمیت کے ساتھ آئین پرعملداری کا معاملہ ہے، 90 دن میں انتخابات کرانے پر عدالت فیصلہ دے چکی ہے جبکہ کل رات ٹی وی پر دونوں فریقین کا مؤقف بھی سنا. مذاکرات ناکام ہوئے تو عدالت 14 مئی کے فیصلے کولے کر بیٹھی نہیں رہے گی. آئین کے مطابق اپنے فیصلے پر عمل کرانے کیلیے آئین استعمال کرسکتے ہیں. عدالت اپنا فریضہ انجام دے رہی ہے. چیف جسٹس نے کہا، کہا گیا ماضی میں عدالت نے آئین کا احترام نہیں کیا اور راستہ نکالا اوراس سے نقصان ہوا، اس عدالت نے ہمیشہ احترام کیا اور کسی بات کا جواب نہیں دیا، جب غصہ ہو تو فیصلے درست نہیں ہوتے اس لیے ہم غصہ ہی نہیں کرتے، نائیک صاحب، یہ دیکھیں یہاں کس لیول کی گفتگو ہوتی ہے اور باہر کس لیول کی ہوتی ہے، عدالت اوراسمبلی میں ہونے والی گفتگو کو موازنہ کرکے دیکھ لیں۔جسٹس عمر عطا بندیال نے مزید کہا کہ حکومت نے کبھی فیصلہ حاصل کرنے کی کوشش ہی نہیں کی، آپ چار ،تین کی بحث میں لگے رہے، جسٹس اطہرمن اللہ نے اسمبلیاں بحال کرنے کا نقطہ اٹھایا تھا لیکن حکومت کی دلچسپی ہی نہیں تھی، آج کی گفتگو ہی دیکھ لیں،کوئی فیصلے یا قانون کی بات ہی نہیں کررہا، حکومت کی سنجیدگی یہ ہے کہ ابھی تک نظرثانی درخواست دائرنہیں کی، حکومت قانون میں نہیں سیاست میں دلچسپی دکھا رہی ہے۔. انتخابات والے فیصلے پر نظرثانی کا وقت اب گزر چکا ہے، ہم اس معاملے میں صرف سہولت کاری کرنا چاہتے ہیں، ایک ہی روز انتخابات کی تاریخ پر اتفاق رائے ہونا چاہیے، اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ معاملہ سیاسی عمل پر چھوڑا جائے۔

دوران سماعت خواجہ سعد رفیق نے عدالت کے روبرو موقف اپنایا کہ اداروں کے ایک دوسرے کے اختیارات میں مداخلت سے اس ملک نے پہلے ہی بہت نقصان اٹھایا ہے۔اس سلسلے کو رکنا چاہیئے، یہ خوش آئند ہے کہ فریقین کے مابین چار میں سے تین نکات پر اتفاق رائے ہو چکا ہے۔صرف ایک نقطے پر اتفاق ہونا باقی ہے۔اگر مذاکراتی عمل جاری رہتا ہے تو قوی امید ہے کہ اس نقطے پر بھی اتفاق رائے ہو جائے گا۔پی ٹی آئی کے کونسل شاہ خاور نے اس موقع پر عدالت کے سمانے موقف اپنایا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ دونوں سائیڈ سے ذمہ داران کو مذاکراتی کمیٹی میں شامل کیا جائے۔حکمران جماعتوں کو وزیر اعظم جبکہ پی ٹی آئی کی طرف سے عمران خان اس مذاکراتی عمل میں شامل ہوں تو اس مسئلہ کاحل نکل سکتا ہے۔عدالت کے استفسار پر خواجہ سعد رفیق نے موقف اپنایا کہ انہیں نہیں لگتا کہ اس کی ضرورت ہے۔جو کمیٹی پہلے اس پر بات کر رہی ہے صرف وہی اپنا کام جاری رکھے تو مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔پی ٹی آئی کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ شاہ محمود قریشی نے عدلات کو بتایا کہ مذاکرات کے عمل میں جو سنجیدگی ہماری طرف سے دکھائی گئی وہ حکومتی سائیڈ سے نہیں تھی۔ہم تو آج بھی 14مئی کو انتخابات کرانے کے عدالتی فیصلے کے پیچھے کھڑے ہیں۔جبکہ متحدہ حکومت نے نہ اس فیصلے کو چیلنج کیا ہے اور نہ تا حال اس فیصلہ پر سنجیدگی دکھائی ہے۔میری رائے میں مذاکرات کے ٹیبل پر مزید بیٹھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہونے والا۔عدالت عظمیٰ نے فریقین کے دلائل سننے کے کاروائی مکمل کرتے ہوئے قرار دیا کہ آج کیس کی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کیا جائیگا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button