پاکستان

سوال نیب قوانین میں غلط ترامیم کا نہیں بلکہ؟ جسٹس منصورعلی شاہ کا اختلافی نوٹ سامنےآگیا

اختلافی نوٹ میں لکھا ہے کہ سپریم کورٹ کے سامنے سوال نیب قوانین میں غلط ترامیم کا نہیں بلکہ 24 کروڑ عوام کی منتخب پارلیمنٹ کی بالادستی کا ہے

اسلام آباد(کھوج نیوز)عدالت عظمیٰ کے جسٹس منصور علی شاہ نے نیب ترامیم کے حوالے سے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا ہے کہ سپریم کورٹ کے سامنے سوال نیب قوانین میں غلط ترامیم کا نہیں بلکہ 24 کروڑ عوام کی منتخب پارلیمنٹ کی بالادستی کا ہے، سوال پارلیمانی جمہوریت کی اہمیت اور آئین کے تین ستونوں کے بیچ اختیارات کی تقسیم کا ہے، سوال اُن غیر منتخب ججوں پر مشتمل عدالت کے اختیارات کا ہے جو پارلیمنٹ کے بنائے گئے قانون کے مقاصد اور پالیسی پر نظر ثانی کرنا چاہتے ہیں اور آئین میں درج بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کو جواز بنا رہے ہیں جسکا شکوک سے بالاتر کوئی ثبوت بھی پیش نہیں کیا گیا-

اکثریتی فیصلے نے آئین کے اُس واضح حکم کو بھی نظر انداز کیا جس میں صاف طور پر کہا گیا ہے کہ ریاست اپنا اختیار منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال کریگی اور اکثریتی فیصلے نے آئین کے تین ستونوں (پارلیمنٹ، انتظامیہ اور عدلیہ) کے بیچ اختیارات کی تقسیم جیسے پارلیمانی جمہوریت کے بنیادی اصول کو بھی نظر انداز کر دیا ہے۔ اکثریتی ججز حضرات نے خود کو ایک سیاستدان کے ایسے غیر آئینی جال میں پھنسا لیا ہے جسکے تحت پارلیمنٹ کے منظور شدہ قانون کے مقصد اور پالیسی پر ہونے والی سیاسی بحث کو کمرہ عدالت میں گھسیٹ لایا گیا، یہ طے کئیے بغیر کہ پارلیمنٹیرینز کے احتساب کو انسانی حقوق کے نفاذ کے ساتھ کیسے جوڑا جا سکتا ہے،

اکثریتی فیصلہ ادھر اُدھر سے تصوراتی دنیا میں دور کی کوڑی لا کر انسانی حقوق کی خود ساختہ خلاف ورزی کے امکان کے خدشے کا اظہار کرتا ہے۔ اکثریتی فیصلہ اس بات کو بھی سمجھنے میں ناکام ہے کہ پارلیمنٹ جو قانون بنا سکتی ہے تو اُس کو ختم بھی کر سکتی ہے اور اس حوالے سے پارلیمنٹ کا اختیار لامحدود ہے، اگر پارلیمنٹ نیب کا قانون بنا سکتی ہے تو اسکو مکمل طور پر ختم بھی کر سکتی۔ تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کی جائینگی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button