پاکستان

سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل، سپریم کورٹ کا محفوظ فیصلہ سنا دیا گیا

دہشتگردوں کے ٹرائل کیلئے آئینی ترمیم ضروری تھی عام شہریوں کیلئے نہیں ؟میں آپ کے دلائل کو سمجھنے کی کوشش کررہا ہوں: جسٹس اعجاز الاحسن

اسلام آباد(کھوج نیوز) سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل، سپریم کورٹ نے محفوظ فیصلہ سنا دیا، سپریم کورٹ کا فیصلہ سامنے آنے کے بعد شہریوں سمیت سیاستدانوں میں ہلچل مچ گئی۔

تفصیلات کے مطابق سویلینز کے ملٹری کورٹس میں ٹرائل کے کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی،جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں 5رکنی لارجر بنچ نے کیس کی سماعت کی،جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ سویلینز آرمی ایکٹ کے دائرے میں کیسے آتے ہیں؟جسٹس عائشہ ملک نے کہاکہ آئین کا آرٹیکل 8کیا کہتا ہے اٹارنی جنرل صاحب؟اٹارنی جنرل نے کہاکہ آرٹیکل 8کے مطابق بنیادی حقوق کے برخلاف قانون سازی برقرار نہیں رہ سکتی،جسٹس عائشہ ملک نے کہاکہ آرمی ایکٹ افواج میں نظم و ضبط کے قیام کیلئے ہے،افواج کے نظم و ضبط کیلئے موجود قانون کا اطلاق سویلینز پر کیسے ہو سکتا ہے؟

جسٹس عائشہ ملک نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ 21ویں آئینی ترمیم کا دفاع کیسے کیا جا سکتا ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہاکہ افواج کا نظم و ضبط اندرونی جبکہ فرائض کے انجام میں رکاوٹ ڈالنا بیرونی معاملہ ہے،اٹارنی جنرل نے کہاکہ فوجی عدالتوں میں ہر ایسے شخص کا ٹرائل ہو سکتا ہے جو اس کے زمرے میں آئے،جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ جن قوانین کا آپ حوالہ دے رہے ہیں وہ فوج کے ڈسپلن سے متعلق ہیں،جسٹس عائشہ ملک نے کہاکہ کیا بنیادی حقوق کی فراہمی پارلیمان کی مرضی پر چھوڑی جا سکتی ہے، آئین بنیادی حقوق کی فراہمی کو ہر قیمت پر یقینی بناتا ہے،عام شہریوں پر آرمی ڈسپلن ، بنیادی حقوق معطلی کے قوانین کیسے لاگو ہو سکتے ہیں؟عدالت نے یہ دروازہ کھولا تو ٹریفک سگنل توڑنے والا بھی بنیادی حقوق سے محروم ہوگا، کیا آئین کی یہ تشریح کریں کہ جب دل چاہئے بنیادی حقوق معطل کر دیئے جائیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ممنوعہ علاقوں، عمارات پر حملہ بھی ملٹری عدالتوں میں جا سکتا ہے،جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ دہشتگردوں کے ٹرائل کیلئے آئینی ترمیم ضروری تھی عام شہریوں کیلئے نہیں ؟میں آپ کے دلائل کو سمجھنے کی کوشش کررہا ہوں،اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرمڈ فورسز سے ملزمان کا ڈائریکٹ تعلق ہو تو کسی ترمیم کی ضرورت نہیں،جسٹس عائشہ ملک نے کہاکہ آرمی ایکٹ آرمڈ فورسز کے اندر ڈسپلن کی بات کرتا ہے،جسٹس مظاہر علی نقوی نے کہاکہ آپ آرمی ایکٹ کا دیباچہ پڑھیں،جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ قانون پڑھیں تو واضح ہوتا ہے یہ تو فورسز کے اندر کیلئے ہوتا ہے،آپ اس کا سویلین سے تعلق کیسے دکھائیں گے،اٹارنی جنرل نے کہاکہ آرمی ایکٹ افسران کو اپنے فرائض سرانجام دینے کا بھی کہتا ہے،کسی کو ڈیوٹی ادا کرنے سے روکنا بھی قانون میں جرم بن جاتا ہے،جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ قانون مسلح کے اندر موجود افراد کی بھی بات کرتا ہے،اٹارنی جنرل نے کہاکہ بات فورسز میں ڈسپلن حد تک ہو تو یہ قانون صرف مسلح افواج کے اندر کی بات کرتا ہے،جب ڈیوٹی سے روکا جائے تو پھر دیگر افراد بھی اسی قانون میں آتے ہیں،جسٹس عائشہ ملک نے کہاکہ سویلین ٹرائل آئین اور قانون فرائض کی ادائیگی کا پابند آرمڈ فورسز کو کرتا ہے،قانون کہتا ہے آپ فرائض ادا نہ کرسکیں تو آئین کے بنیادی حقوق کا حصول آپ پر نہیں لگے گا،اٹارنی جنرل نے کہاکہ عدالت نے 21ویں آئینی ترمیم کا جائزہ لیا اور قرار دیا فیئر ٹرائل کا حق متاثر نہیں ہوگا،جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ آپ ساری آرمڈ فورسز کے کیسز پڑھ رہے ہیں،عدالت نے دلائل سننے کے بعد کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button