پاکستان

محسن نقوی اور شہباز شریف میں لڑائی شدت اختیار کر گئی

لاہور(کھوج نیوز) وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی اور وزیراعظم میاں شہباز شریف میں اختلافات شدت اختیار کر گئی۔

تفصیلات کے مطابق سینئر صحافی و تجزیہ کار نجم سیٹھی نے بتایا کہ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی اور وزیر اعظم شہباز شریف کے مابین تلخی کی خبروں میں صداقت ہے۔ محسن نقوی چاہتے ہیں کہ وہ اپنی پنجاب کی ٹیم کو اسلام آباد میں لے جائیں۔ کچھ لوگوں کو وہ اپنے ساتھ لانا چاہتے ہیں جن میں انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب ڈاکٹر عثمان انور شامل ہیں۔ محسن نقوی چاہتے ہیں کہ آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کو سیکرٹری داخلہ تعینات کیا جائے۔

نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں یہ بات وزیر اعظم شہباز شریف کو بالکل پسند نہیں آئے گی۔ ایک صوبہ پی ٹی آئی لے گئی، ایک صوبہ پیپلز پارٹی کے پاس ہے، پنجاب مریم نواز کے پاس ہے، شہباز شریف کی جو تھوڑی بہت چلتی ہے وہ اسلام آباد میں ہی چلتی ہے تو اسلام آباد بھی اگر محسن نقوی نے ٹیک اوور کر لیا تو سمجھیں کہ وہ ‘بھائی لوگوں’ کے پاس ہی چلا گیا تو پھر شہباز شریف کیا کریں گے؟ اگر ایسا ہو گیا تو پھر شہباز شریف محض مختلف تقریبات وغیرہ میں ہی شرکت کریں گے۔ اسلام آباد وفاقی حکومت کا مرکز ہے، یہاں شہباز شریف اور محسن نقوی کے مابین تھوڑی بہت چپقلش ضرور ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ چونکہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن وزیر اعظم کے ماتحت آتا ہے اور وہاں انہوں نے اپنے ایک چہیتے بیوروکریٹ کو ہیڈ لگایا ہوا ہے۔ اگر محسن نقوی اپنے منتخب کیے ہوئے لوگوں کو لے کر آئیں گے تو یہ بات اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو پسند نہیں آئے گی کیونکہ سیکرٹریز کو نامزد کرنے کا اختیار وزیر اعظم کا ہوتا ہے۔ ایک تو آپ سیکرٹری اپنی پسند کا لانا چاہتے ہیں اور وہ بھی سینئر پولیس افسر۔ ڈی ایم جی گروپ کو بھی یہ بات پسند نہیں آئے گی۔ ڈی ایم جی کی وجہ سے پولیس کے مسائل بننے لگتے ہیں، تو ان کی تعیناتی کے اوپر کچھ لین دین ہو گا۔ بہرحال ڈاکٹر عثمان انور ایف آئی اے میں جانا چاہتے ہیں کیونکہ یہ چوہدری نثار کے وقت میں ایف آئی اے کے ڈائریکٹر یا ڈپٹی ڈائریکٹر تھے۔ ان کے چوہدری نثار کے ساتھ بہت قریبی تعلقات تھے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اپنے پرانے ادارے میں واپس چلے جائیں کیونکہ وزیر اعلیٰ پنجاب بھی اپنا آئی جی لانا چاہیں گی۔ وہ نہیں چاہیں گی کہ محسن نقوی کا بندہ پنجاب میں بیٹھا ہو اور محسن نقوی اسلام آباد میں بیٹھ کر پنجاب کو اپنی مرضی سے چلائیں۔

نجم سیٹھی کے مطابق سیکرٹری داخلہ کی تعیناتی کے علاوہ ایک اور معاملے میں وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر داخلہ محسن نقوی کے مابین بحث ہوئی ہے اور وہ معاملہ یہ ہے کہ محسن نقوی کے پاس پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کا عہدہ رہنا چاہیے یا نہیں۔ ان کے مطابق جب محسن نقوی نے پی سی بی آنے کا فیصلہ کیا اور اس کے بعد ایک اور عہدہ بھی ان کو ملنا تھا۔ انہوں نے پی سی بی کا چارج موجودہ حکومت آنے سے پہلے ہی سنبھال لیا۔ جانے والی حکومت سے خود کو منتخب کروایا تا کہ آنے والی حکومت میں اس عہدے کی تقرری کے لیے کوئی بحث ہی نہ ہو۔ کیونکہ حکومت کے لیے چند روز قبل منتخب ہوئے چیئرمین پی سی بی کو ہٹانا مشکل ہو جاتا ہے۔ انہوں نے سمارٹلی یہ قدم اٹھایا تا کہ آنے والی حکومت سے جب کسی عہدے کے لیے بات چیت چلے تو وہ کہہ سکیں کہ یہ تو گذشتہ حکومت کا کام تھا۔ میری بہت خدمات ہیں تو آپ مجھے کون سا عہدہ دے سکتے ہیں؟

ایسے میں جہاں سے فون کالز آتی ہیں وہاں سے شہباز صاحب کو کال آ گئی کہ یہ ہمارا بندہ ہے اور اس کو وزارت داخلہ دیں کیونکہ ہم اپنے بندے کو وزارت داخلہ دیتے ہیں۔ رانا ثناء اللہ جب وزیر داخلہ تھے تو اسٹیبلشمنٹ خوش تو نہیں تھی لیکن ان کا مُک مُکا ہو گیا تھا۔ پنجاب میں جیسی کارکردگی محسن نقوی نے دکھائی تو اب وہ چاہتے ہیں کہ انہیں ہی وفاق میں لائیں۔ پہلے شہباز صاحب کو تھوڑا جھٹکا لگا لیکن بعد میں انہوں نے یہ کڑوا گھونٹ پی لیا اور سوچا کہ ‘پا جی کہندے نیں تے ٹھیک اے’۔ شہباز شریف مان گئے اور بولے کہ ٹھیک ہے جو آپ کا حکم۔

نجم سیٹھی نے کہا کہ میری اطلاعات کے مطابق اس موقع پر شہباز شریف نے محسن نقوی سے کہا کہ پی سی بی تو فل ٹائم جاب ہے، تمہیں بالکل وقت نہیں ملے گا تو تم وزارت رکھو اور دوسرا عہدہ چھوڑ دو۔ یہاں دہشت گردی سمیت بہت زیادہ مسائل ہیں جن کا ملک کو سامنا ہے۔ تو صرف وزارت داخلہ پر فوکس کرو۔ اس پر محسن نقوی نے جواب دیا کہ آپ فکر ہی نہ کریں، میں دونوں عہدے سنبھال لوں گا

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button