سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کی منظوری’ بل میں ترمیم بھی کر ڈالی
تیس روز قبل جن از خود نوٹسز کے فیصلے ہوئے ان پر بھی اپیل کا حق دینے ' آئین کی تشریح کے مقدمات کی سماعت کیلئے پانچ سے کم ججز پر مشتمل بینچ تشکیل نہیں دیا جائیگا،ترمیمی بل
اسلام آباد (کورٹ رپورٹر، آن لائن )قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی قانون و انصاف نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کی منظوری دے دی،قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 جائزہ کے لیے پیش کیا گیا جس کو تین ترامیم کے ساتھ منظور کرلیا گیا ہے،قانون منظور ہونے سے تیس روز قبل جن از خود نوٹسز کے فیصلے ہوئے ان میں بھی اپیل کا حق دینے کی ترمیم بل میں شامل کی گئی ہے، ترمیمی بل میں کہا گیاہے کہ آئین کی تشریح کے مقدمات کی سماعت کے لئے پانچ سے کم ججز پر مشتمل بینچ تشکیل نہیں دیا جائے گا۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کا اجلاس بشیر محمود ورک کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا، اجلاس میں وزیرقانون و انصاف اعظم نذیر تارڑ اور وزیر مملکت شہادت اعوان بھی شریک ہوئے۔اس موقع پر وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ گزشتہ روز ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں کہا تھا کہ کوئی ایسا قانون نہ بنائیں جس کی چیلنج کیا جائے، بل کو غور کے لیے کمیٹی کے سپرد کیا گیا جس کا مقصد ہے کہ اعلیٰ ترین عدالت میں شفاف کارروائی ہو۔اجلاس میں اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ یہ بل بار کونسلز اور شراکت داروں کا پرانا مطالبہ تھا، بار کونسلز کا کہنا تھا کہ 184 تین کے بے دریغ استعمال کو روکا جائے، پہلے اپیل کے حق سے افراد محروم تھے، اسے بل میں شامل کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اہم نوعیت کے کیسز کی چھ چھ ماہ سماعت نہیں ہوتی، سپریم کورٹ کے اندر سے بھی آوازیں آئیں، وقت تھا کہ پارلیمان اب اس پر قانون سازی کرے۔ وزیر قانون نے کہا کہ پہلے سوموٹو میں اپیل کا حق نہیں تھا جو بنیادی حقوق اور شریعت کے بھی خلاف تھا،اس بل میں اپیل کا حق دیا گیاہے، سوموٹو میں وکیل تبدیل کرنے کی اجازت نہیں تھی اب اس بل کے تحت وکیل تبدیل کیا جاسکے گا،اب نئے قانون کے تحت فوری نوعیت کے مقدمات کی جلد سماعت کرنا ہوگی۔
وزیر قانون اغظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ ان معاملات پر بڑے عرصہ سے عوامی سطح پر مطالبات سامنے آرہے تھے، حامد خان نے بھی اس قانون کو وقت کی ضرورت قرار دیا،انہوں نے بھی کہا کہ اس قانون سے عدالت میں استحکام آئے گا۔ انہوں نے کہا کہ وکلاء برادری میں اضطراب پایا جاتا ہے، لوگ کہتے ہیں کہ اہم کیسوں میں جے ٹو اور جے تھری کو کیوں شامل نہیں کیا جاتا، از خود نوٹس کے اختیار کو ون مین شو کی طرح استعمال کیا گیا، ہم نے ہر طرح سے دیکھا ہے اس میں آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں ہے، بدقسمتی سے تین سال سے سپریم کورٹ میں فل کورٹ اجلاس نہیں ہوا۔وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ وفاقی حکومت کا فرض ہے کہ قانون سازی کر کے خلا کو پر کرے۔آٹھ آٹھ ماہ سے جلد سماعت کی درخواستیں پڑی ہیں کوئی سنتا ہی نہیں۔ اس موقع پرچیئرمین کمیٹی بشیر محمود ورک نے سوال اٹھایا کہ کیا اس بل میں آئین کے منافی کوئی چیز شامل ہے؟ جس پر ممبر کمیٹی نفیسہ شاہ نے کہا کہ ارکان پارلیمنٹ تو متفق ہیں لیکن پارلیمنٹ کے باہر سے کچھ آوازیں اٹھ رہی ہیں، قانون سازی کی ٹائمنگ پر اعتراض کیا جا رہا ہے کچھ لوگ کہ رہے ہیں کہ آرٹیکل 184 تھری میں ترمیم کرنی پڑے گی۔
اس موقع پر ممبر کمیٹی رمیش کمار کا بل پر سپریم کورٹ سے ان پٹ لینے کا مشورہ جس پر ارکان کمیٹی نے قہقہے لگائے چیئرمین قائمہ کمیٹی محمود بشیر ورک نے رمیش کمار سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب، ان سے اجازت لی جائے؟ بل میں تجویز دی گئی کہ آئین کی تشریح کے کیسز کی سماعت کیلئے ججز کمیٹی پانچ ارکان سے کم ججز پر مشتمل بینچ تشکیل نہیں دے گی اس پر ممبر کمیٹی محسن شاہنواز رانجھا نے کہا کہ اس ایکٹ کا اطلاق پچھلے تاریخوں سے کیا جائے جبکہ ممبر کمیٹی نوید قمر نے کہا کہ ایسا نہ کریں، الزام آئے گا کہ نواز شریف کو ریلیف دینے کیلئے قانون سازی کی جا رہی ہے اس پر وزیر قانون کا کہنا تھا کہ اس بات کو ججز پر ہی چھوڑ دیا جائے تو بہتر ہیاجلاس میں دیگر ایجنڈے پیش کئے گئے تاہم ان کوقائمہ کمیٹی کی مشاورت کے بعد آنئدہ اجلاس تک کے لیے موخر کر دیا گیا۔
محمدعامر بابر اعظم پر تنقید کیوں کرتے ہیں؟ وہاب ریاض نے سچ سے پردہ اٹھا دیا