پنجاب میں پھیلتا ہوا خسرہ، حکومتی اقدامات کا پول بھی کھل گیا
2024ء میں اب تک پنجاب بھر میں خسرہ کے تیرہ ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں جبکہ31 اموات بھی واقع ہوئی ہیں: محکمہ صحت پنجاب کے اعدادو شمار

لاہور(کھوج نیوز) صوبہ پنجاب میں پھیلتے ہوئے خسرہ کی وباء میں کیوں اضافہ ہو رہا ہے اور اس حوالے سے حکومت کی جانب سے کیے گئے اقدامات کا پول بھی کھل گیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق صوبہ پنجاب میں تیزی سے پھیلتے ہوئے خسرہ کی تشویشناک صورتحال پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر ہارون حامد نے بتایا ہے کہ ہمارے پاس ہر عمر کے بچے خسرہ سے متاثر ہو کر آرہے ہیں۔ جہاں تک رہی بات کہ سب سے زیادہ مریض کہاں سے آرہے ہیں؟ تو ہم نے دیکھا ہے کہ لاہور، ملتان اور راولپنڈی ہاٹ سپاٹ شہر ہیں جبکہ پنجاب کے دیگر شہروں میں بھی اس کا پھیلا دیکھا گیا ہے تاہم اس کی شدت بہت زیادہ نہیں ہے۔ انھوں نے مزید بتایا کہ اس وقت بچوں کے علاوہ وہ مائیں جو متاثرہ بچوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں، وہ بھی اس وائرس کا شکار ہو رہی ہیںجبکہ کچھ کیسز مردوں کے بھی سامنے آئے ہیں۔ ہمارے پاس علاج کے لیے خسرہ سے متاثر سب کم عمر بچہ صرف 25 دن کا آیا تھا۔ ایسے کیسز میں اتنے چھوٹے بچے کا خاص خیال رکھنا ضروری ہے۔
زیادہ تر ماہرین کے مطابق خسرہ کے پھیلا اور وبا کی صورت اختیار کرنے کی بنیادی وجہ اس کا تیزی سے ایک شخص سے دوسرے تک منتقل ہونا ہے۔ ڈاکٹر ہارون کے مطابق جب بھی کوئی بچہ یا بڑا کسی متاثرہ شخص کے ساتھ بغیر احتیاطی تدابیر کے رابطے میں آتا ہے تو عین ممکن ہے کہ وہ بھی اس وائرس کا شکار ہوجائے۔ انھوں نے خسرہ کے پھیلاو کی مزید وجوہات کو بیان کرتے ہوئے کہا ہم نے دیکھا ہے کہ پاکستان بلخصوص پنجاب میں ہر چار سے پانچ سال بعد خسرہ کی وبا پھوٹتی ہے جس کی وجہ پنجاب میں بمشکل 85 فیصد لوگوں کا خسرہ سے بچا کے حفاظتی ٹیکوں کا کورس پورا کرنا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر آپ کسی علاقے یا شہر کو خسرہ جیسے مرض کے پھیلا کو روکنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ اس علاقے کے 95 فیصد افراد کو اس کے حفاظتی ٹیکے لگے ہوں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ ایسا وائرس وبا کی صورت نہ اختیار کرے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ ویکسین لگوائیں۔
ڈاکٹرز کے مطابق خسرہ ایک وائرس ہے جو زیادہ تر کم عر بچوں کو متاثر کرتا ہے۔ تاہم بچوں کے علاوہ بڑے بھی اس وائرس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ڈاکٹر کے مطابق اس وائرس میں کچھ مخصوص علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ جیسا کہ کھانسی، گلا خراب ہونا، بخار، آنکھوں کی تکلیف، جسم پر دانوں کا نمودار ہونا۔ یہ وہ تمام تر علامات ہیں جن کے نمودار ہونے پر ڈاکٹر سے رجوع کرنا ضروری ہے۔ بچوں کے امراض کے ماہر ڈاکٹر ہارون حامد کے مطابق خسرہ میں جسم پر دانے فوری نمودار نہیں ہوتے ہیں۔ اس سے پہلے دیگر علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ایسے بچے کو سب سے الگ رکھیں تاکہ دیگر لوگ متاثر نہ ہوں۔ انھوں نے اس بیماری کے بارے میں بات کرتے ہوئے مزید کہا کہ ویسے تو یہ بیماری نقصان دہ نہیں ہے البتہ اگر اس میں نمونیہ، گردن توڑ بخار یا ساتھ کوئی اور انفیکشن ہوجائے تو یہ جان لیوا بھی ہو سکتی ہے۔ اس لیے احتیاط ضروری ہے۔
ڈاکٹر مختار اعوان نے حکومتی اقدمات کے بارے میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس وقت ہم نے تمام تر ہاٹ سپاٹ علاقوں کی نشاندہی کرلی ہے اور ہم ان کی نگرانی کر رہے ہیں۔ یہی نہیں ہم اس کے ساتھ ساتھ آگاہی مہم بھی چلا رہے ہیں۔ جبکہ جہاں جہاں ہمیں ایک بھی کیس ملتا ہے تو ہم متاثرہ گھر کے آس پاس کے سو گھروں کی سیپملنگ کرکے چیک کر رہے ہیں۔ اور ساتھ ان لوگوں کو ویکسینٹ کر رہے ہیں جن کوخسرہ سے بچا کا ٹیکہ نہیں لگا ہے۔ انھوں نے مزید بتایا کہ پنجاب کے مختلف ہسپتالوں میں خسرہ کے مریضوں کے لیے ایک الگ وارڈ بنا دیے گئے ہیں تاکہ وہ اس کے پھیلا کو روکا جا سکے۔ اس کے علاوہ اگلے سال ہمارا ارادہ ہے کہ 2025 میں پورے ملک میں بڑے پیمانے پر خسرہ کی کمی اور اس کے بچا کے لیے مہم چلائی جائے گی۔
ڈائریکٹر امیونائزیشن پروگرام پنجاب ڈاکٹر مختار اعوان نے بتایا کہ یہ حقیقت ہے کہ خسرہ سے بچا کے ٹیکے سو فیصد لوگوں کو نہیں لگ پاتے ہیں۔ لیکن یہ اس کے پھیلا کی واحد وجہ نہیں ہے۔ اس معاملے میں ہمیں کچھ دہائیوں پیچھے دیکھنا ہوگا۔ آج کل خسرہ سے بچا کا ٹیکہ بچے کو نو ماہ اور پندرہ ماہ کی عمر میں لگتا ہے۔ جبکہ پہلے ایسا نہیں تھا۔ پہلے زمانے میں ایک ٹیکہ لگایا جاتا تھا۔ اس لیے جب خسرہ بچوں کو ہوتا ہے تو اس سے اکثر مائیں بھی متاثر ہو جاتی ہیں۔ اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ لوگ بچوں کا ایک سال کا حفاظتی ٹیکوں کا کورس ختم ہونے کے بعد پندرہ ماہ پر لگنے والی دوسری ڈوز کے لیے واپس نہیں آتے ہیں جس کی وجہ سے کئی بچے بوسٹر ڈوز سے محروم رہ جاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں صوبہ پنجاب میں دو کڑور پینتیس لاکھ بچے پانچ سال سے کم عمر ہیں اور ان سب کو ویکسین لگانے اور ویکسینیشن کی خریداری کے لیے ہمیں 24 ارب روپے چاہیے ہوتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس مرتبہ خسرہ نے وبا کی صورت اس لیے بھی اختیار کی ہے کیونکہ کورونا کے دنوں میں ہر قسم کی مہم اور میڈیکل سے جڑی چیزیں رک گئی تھیں۔ جس کی وجہ سے کئی بچوں کے حفاظتی ٹیکے لگنے میں بھی دیر ہوئی۔ لیکن ہم نے کورونا کے بعد پولیو کی مہم کے ساتھ سب بچوں کے حفاضتی ٹیکوں کے کارڈ بھی چیک کیے تاکہ جن بچوں کی ویکسینشن رہ گئی تھی اسے لگایا جا سکے۔