افغانستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملے، پاکستان اور طالبان کے درمیان اتفاق، اعلان کابل سے جلد کیا جائیگا
پاکستان نے امید ظاہر کی ہے کہ دوحہ میں طالبان وفد سے ہونے والی ملاقات کے بعد دونوں اسلام آباد اور کابل کے درمیان باضابطہ مذاکرات کا آغاز جلد ہو جائے گا

دوحہ (کھوج نیوز) افغانستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملے، پاکستان اور طالبان کے درمیان اتفاق، اعلان کابل سے کب کیا جائیگا؟ تمام تر تفصیلات سامنے آگئی ہیں۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان نے امید ظاہر کی ہے کہ دوحہ میں طالبان وفد سے ہونے والی ملاقات کے بعد دونوں اسلام آباد اور کابل کے درمیان باضابطہ مذاکرات کا آغاز جلد ہو جائے گا۔پاکستان کے افغانستان کے لیے نمائندہ خصوصی آصف درانی نے تصدیق کی کہ افغانستان کے ساتھ باضابطہ مذاکرات کا آغاز جلد ہوگا۔ آصف درانی نے مذاکرات کی تفصیلات نہیں بتائیں کہ اس کا مقام اور ایجنڈا کیا ہوگا۔
قطر کے دارالحکومت دوحہ میں 30 جون کو اقوامِ متحدہ کے زیرِ اہتمام افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان سے رابطوں کے سلسلے میں کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں لگ بھگ 24 ممالک کے افغانستان کے لیے خصوصی مندوبین اور چند بین الاقوامی تنظیموں کے نمائندوں نے شرکت کی۔یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب دونوں ممالک کے رہنماں کے درمیان حالیہ سخت بیانات کے تبادلے کے بعد حالات میں پائے جانے والے تنا میں اضافہ دیکھا گیا تھا۔ پاکستان کے افغانستان کے لیے نمائندہ خصوصی آصف درانی نے اجلاس کے موقع پر طالبان وفد سے ملاقات کی تھی۔ دوحہ میں پاکستانی سفیر نے طالبان وفد کو اپنے گھر پر کھانے پر مدعو کیا تھا۔ آصف درانی کی جانب سے یہ بیان دوحہ میں اقوامِ متحدہ کی کانفرنس کے موقع پر طالبان وفد سے ہونے والی ملاقات کے بعد دیا گیا ہے۔
دوسری جانب افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان کے قطر میں سیاسی دفتر کے سربراہ سہیل شاہین نے کہا تھا کہ وہ کسی کو افغانستان کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ مبصرین دوحہ میں ہونے والی ملاقات کو دونوں ملکوں کے درمیان پائے جانے والے تلخ ماحول میں اہم پیش رفت قرار دیتے ہیں جس کے نتیجے میں باضابطہ مذاکرات کا آغاز ہونے کے امکانات پائے جاتے ہیں۔ افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر منصور احمد خان کہتے ہیں کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کچھ عرصے سے باضابطہ مذاکرات نہیں ہو رہے تھے۔ دوحہ ملاقاتوں کے بعد بات چیت کا باقاعدہ آغاز خوش آئند اور اہم اپیش رفت ہے۔ اس سے قبل گزشتہ ہفتے دونوں ملکوں کے درمیان پہلے سے پائے جانے والے تنا میں اس وقت کشیدگی آئی تھی جب پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے وائس آف امریکہ کو دیے گئے انٹرویو میں کہا تھا کہ عزمِ استحکام آپریشن کے تحت اگر ضرورت محسوس ہوئی تو تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی سرحد پار پناہ گاہوں کو بھی نشانہ بنایا جائے گا۔



