پاکستان

اگرمملکت آج مارشل لا یا ایمرجنسی سےمحفوظ ہےتو سہرا قاضی عیسیٰ کےسرہے،صحافی حفیظ اللہ نیازی کا تجزیہ

حفیظ اللہ نیازی لکھتے ہیں کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ آج ریٹائر ہو جائیں گے۔ اگر مملکت آج مارشل لا یا ایمرجنسی سے محفوظ ہے تو سہرا قاضی عیسیٰ کے سر ہے۔ 8فروری کے الیکشن انعقاد کا کریڈٹ قاضی صاحب کو جاتا ہے

لاہور(ویب ڈیسک) سینئر صحافی اور تجزیہ کار حفیظ اللہ نیازی نے ایک قومی روزنامہ کے لئے لکھے گئے اپنے بلاگ میں ریٹائر ہونے والے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو زبردست انداز میں خراج تحسین پیش کیا،حفیظ اللہ نیازی لکھتے ہیں کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ آج ریٹائر ہو جائیں گے۔ اگر مملکت آج مارشل لا یا ایمرجنسی سے محفوظ ہے تو سہرا قاضی عیسیٰ کے سر ہے۔ 8فروری کے الیکشن انعقاد کا کریڈٹ قاضی صاحب کو جاتا ہے۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل، صدارتی ترامیم آرڈیننس پر فل کورٹ نہ بنانا، اسکا عدالتی جائزہ نہ لینا یقیناً بحث و تمحیص رہنی ہے۔ منصور علی خان صاحب کا چیف جسٹس قاضی فائز کو تازہ بہ تازہ خط، یقیناً تحفظات کی گنجائش موجود مگر شاہ صاحب کا کہنا کہ ’’لوگ ہمیں دیکھ رہے ہیں، تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی‘‘۔ شاہ صاحب کی قابلیت، اصول پسندی، دیانتداری کا اعتراف لیکن ’’لوگوں‘‘ کی تعریف ضروری، کون لوگ؟ کیا ضروری ہے کہ تاریخ دان ’’انصافی لوگوں‘‘ کی روایات لیں، فریق مخالف لوگوں کی بھی سنی جائے۔ لوگ تو علانیہ کہہ رہے ہیں کہ خصوصی نشستوں پر 8 رکنی بینچ کا فیصلہ صدارتی آرڈیننس اور آئینی ترامیم کا باعث بنا ہے۔

آرڈیننس اور آئینی ترامیم’’تنگ آمد بجنگ آمد‘‘ ضرور، مگر طریقہ کار آئین و قانون کےمطابق اختیار کیا گیا۔ آسودگی اتنی کہ سپریم کورٹ میں ماورائے پارلیمان فیصلوں میں رکاوٹ صرف اور صرف قاضی فائز رہے۔ جابر سلطان کے سامنے انصاف کا علم بلند کرنا، ملکی تاریخ میں جسٹس قاضی فائز کے علاوہ شاید گنتی کے چند اور ججز ہونگے۔ کوئٹہ دہشتگردی انکوائری کمیشن ہو یا فیض آباد دھرنا، جنرل فیض حمیدپر FIR درج کرنے کا حکم، ملکی تاریخ میں ایسی جرأت رندانہ سے مزین کوئی اور ہے تو سامنے آئے۔ قاضی صاحب! تاریخ آپکو جسٹس کارنیلئس کیساتھ رکھے گی، مورخ یقینا ً آپکی عظمت کا اعتراف کریگا۔ آئینی ترامیم یا آرڈیننس جاری کرنا، حکومت کا آئینی اور قانونی استحقاق ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنے کرتوتوں سے کیسے صَرف نظر کر سکتی ہیں۔ اگر آج عسکری سربراہ مطلق العنان ہے تو اس میں 70 سال سے سیاسی جماعتوں کی محنت اور امدادی کمک میسر رہی۔ عمران خان کا وجود اسٹیبلشمنٹ کا مرہون منت، آج بھی ’’اسٹیبلشمنٹ سے اُمید‘‘، تو’’پھر ہماری بلی ہمی کو میاؤں‘‘۔ آئینی بینچ ہو یا دوسری عدالتی اصلاحات کڑے وقت کی نوید ہیں۔ جن لوگوں کو گھیرنے کیلئے پاپڑ بیلے گئے اُنکے نزدیک گھیرا مزید تنگ ہونے کو ہے، اطلاعاً عرض ہے اسکو شروعات سمجھیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button