پاکستان کے طالبان مخالف گروپوں سے رابطے، افغانستان میں بڑی تبدیلی کی بازگشت
ان سکیورٹی خدشات کے پیش نظر پاکستان افغانستان کے دوسرے ہمسایہ ممالک کے ساتھ مل کر افغان طالبان کیخلاف مشترکہ پوزیشن بنانے کی کوشش کر رہا ہے: سمیع یوسف زئی

اسلام آباد(کھوج نیوز) پاکستان کے طالبان مخالف گروپوں سے رابطوں کا انکشاف ہوا ہے جس کے اس بات کی بازگشت سامنے آ رہی ہے کہ افغانستان میں بہت بڑی تبدیلی کا امکان ہے۔
تفصیلات کے مطابق پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل محمد عاصم ملک کے حالیہ دورہ تاجکستان اور ان کی تاجک صدر سے ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے معروف افغان تجزیہ کار اور صحافی سمیع یوسفزئی نے کہا ہے کہ اس وقت پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان کشیدگی عروج پر ہے اور پاکستان افغانستان کی طرف سے لاحق ہونیوالے سکیورٹی خدشات کیوجہ سے افغان طالبان کے ساتھ عملی طور پر تصادم میں مصروف ہے۔ سمیع یوسف زئی کا کہنا ہے کہ ان سکیورٹی خدشات کے پیش نظر پاکستان افغانستان کے دوسرے ہمسایہ ممالک کے ساتھ مل کر افغان طالبان کیخلاف مشترکہ پوزیشن بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان افغان طالبان مخالف مزاحمتی گروپوں کے ساتھ براہ راست روابط اور افغانستان کے دوسرے ہمسایہ ممالک کے ساتھ افہام و تفہیم کی فضا پیدا کا بھی ارادہ رکھتا ہے، پاکستان نے افغان طالبان کے مخالف پشتون اور غیر پشتون دونوں طرح کے افراد، سیاسی جماعتوں اور عسکری گروہوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے اہم شخصیات کو ذمہ داری دی ہے، پاکستان پہلے ہی افغان طالبان کی مخالف قوتوں اور ترکی، ایران، تاجکستان اور یورپ میں معروف شخصیات کے ساتھ رابطے قائم کر چکا ہے۔
ذرائع کے مطابق افغانستان کے لیے پاکستان کے سابق نمائندہ خصوصی آصف علی درانی اس سے قبل پاکستان کی طرف سے کابل کے مخالفین کو اپنی سرزمین پر پناہ دینے کی وارننگ دیتے ہوئے یہ دعوی کر چکے ہیں کہ افغان حکومت پاکستانی طالبان (ٹی ٹی پی) کے رہنماؤں کو پناہ دے رہی ہے۔ درانی نے کہا کہ کیا افغان طالبان ہم سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ ہم ان کے مخالفین کو پاکستان میں پناہ دیں اور انہیں یہاں سے افغانستان پر حملہ کرنے کی اجازت دیں؟ کیا طالبان یہی چاہتے ہیں۔؟