جو جج ہم نامزد کرتے ہیں اسے ایک ووٹ ہی ملتا ہے ،باقیوں کو زیادہ مل جاتے ہیں ،جسٹس منصور علی شاہ
جسٹس منصور علی شاہ بولے کہ ہم جو ججز نامزد کرتے ہیں انہیں تو ایک ہی ووٹ ملتا ہے، وہ بھی ہمارا ہی ہوتا ہے، باقیوں کو 11، 11 ووٹ پڑ جاتے ہیں، یہ تو گپ شپ لگتی رہے گی۔ جسٹس منصور علی شاہ کی بات پر عدالت میں قہقہے گونجنے لگے

اسلام آباد (کھوج نیوز )سپریم کورٹ میں ایڈیشنل رجسٹرار توہین عدالت شوکاز نوٹس کیس کی سماعت جاری ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 2 رکنی بینچ کیس کی سماعت کررہا ہے جبکہ عدالتی معاون حامد خان اپنے دلائل پیش کررہے ہیں۔تفصیلات کے مطابق، ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس نے عدالت میں شوکاز نوٹس کا جواب جمع کرا دیا ہے۔ انہوں نے اپنے جواب میں مقف اختیار کیا ہے کہ انہوں نے عدالتی حکم کی نافرمانی نہیں کی۔ انہوں نے عدالت سے شوکاز نوٹس واپس لینے کی استدعا کی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ ایڈیشنل رجسٹرار نے عدالتی آرڈر پر بینچ بنانے کے معاملہ پر نوٹ بنا کر پریکٹس پروسیجر کمیٹی کو بھجوادیا تھا۔
آج سماعت کے آغاز پر جسٹس منصور علی خان نے استفسار کیا کہ کیا جوڈیشل آرڈر کو انتظامی سائیڈ سے تبدیل نہیں کیا جاسکتا، جس پر وکیل حامد خان نے عدالت کو بتایا کہ انتظامی آرڈر سے عدالتی حکمنامہ تبدیل نہیں ہوسکتا، سپریم کورٹ کی تشکیل آرٹیکل 175 کے تحت ہوئی ہے، جوڈیشل پاور پوری سپریم کورٹ کو تفویض کی گئی ہے، سپریم کورٹ کی تعریف بھی واضح ہے، اس میں تمام ججز شامل ہیں، یہ نہیں کہا جاسکتا کہ فلاں مخصوص جج ہی سپریم کورٹ کی پاور استعمال کرسکتے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ یہ سوال الگ ہے، اگر ہم آرٹیکل 191 اے کی تشریح کا کیس سنتے تو یہ سوال اٹھایا جاسکتا تھا، ہمارے سامنے بنیادی سوال یہ ہے کہ جوڈیشل آرڈر کی موجودگی میں ججز کمیٹی کیس واپس لے سکتی تھی، چیف جسٹس پاکستان اور جسٹس امین الدین خان ججز کمیٹی کا حصہ ہیں، بادی النظر میں 2 رکنی ججز کمیٹی نے جوڈیشل آرڈر کو نظرانداز کیا، اگر ججز کمیٹی جوڈیشل آرڈر کو نظرانداز کرے تو معاملہ فل کورٹ میں جا سکتا ہے۔ انہوں نے وکیل حامد خان سے کہا کہ اس سوال پر معاونت دیں۔
جسٹس عقیل عباسی بولے کہ بظاہر لگتا ہے اس معاملے پر کنفیوژن تو ہے۔ انہوں نے حامد خان سے پوچھا کہ آپ آرٹیکل 191 اے کو کیسے دیکھتے ہیں، ماضی میں بینچز کی تشکیل جیسے معاملات پر رولز بنانا سپریم کورٹ کا اختیار تھا، اب سپریم کورٹ کے کچھ اختیارات ختم کردیے گئے ہیں، خیر پھر 26ویں ترمیم کا سوال آجائے گا۔جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا دنیا کے کسی ملک میں بینچز عدلیہ کے بجائے بینچ ایگزیکٹو بناتا ہے۔ انہوں نے حامد خان سے پوچھا کہ ان ذہن میں کوئی ایک ایسی مثال ہے، جس پر حامد خان نے جواب دیا، ایسا کہیں نہیں ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ سپریم کورٹ رولز 1980 کے تحت فل کورٹ چیف جسٹس پاکستان بنائیں گے یا کمیٹی بنائے گی، کیا جوڈیشل آرڈر کے ذریعے فل کورٹ کی تشکیل کے لیے معاملہ ججز کمیٹی کو بجھوایا جاسکتا ہے۔
حامد خان نے جواب دیا کہ ریگولر ججز کمیٹی کے ایکٹ کا سیکشن 2 اے آرٹیکل 191 اے سے ہم آہنگ نہیں ہے، پارلیمنٹ عدلیہ کے اختیارات بڑھا سکتی ہے، کم نہیں کرسکتی۔ انہوں نے آرٹیکل 191 اے کی مثال دینا چاہی تو جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اس کا اختیار موجودہ کیس سے الگ ہے، یہ سوالات 26ویں آئینی ترمیم سے متعلق ہیں۔
وکیل حامد خان نے دلائل دیے کہ آرٹیکل 191 اے میں آئینی بینچز کا ذکر ہے، سپریم کورٹ میں ایک آئینی بینچ کا ذکر نہیں ہے، کم از کم 5 ججز پر مشتمل ایک آئینی بینچ ہوسکتا ہے، اس صورتحال میں 3 آئینی بینچز بن سکتے ہیں، ان میں جو سینئر ہوگا وہی سربراہ ہوگا، آرٹیکل 191 اے ججز کمیٹی کے سیکشن 2 اے سے ہم آہنگ نہیں، اس لیے خلاف آئین ہے۔
حامد خان کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالتی معاون احسن بھون نے دلائل پیش کیے کہ ماضی میں کچھ کچھ فیصلے ہوئے، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ماضی کیا حالیہ مخصوص نشتوں کا فیصلہ ابھی پڑا ہے، ماضی میں اتنا نہ جائیں، آپ ہمارے یونیورسٹی کے دوست بھی ہیں۔
احسن بھون نے دلائل دیے کہ ماضی میں تشریح کے نام پر آئینی آرٹیکل کو غیرموثرکیا گیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آج کل تو ایسا کچھ نہیں ہوا، حال میں تو سب ٹھیک ہے۔ احسن بھون نے کہا کہ حال تو مائی لارڈ اب لکھیں گے، ماضی کے تلخ تجربات کی روشنی میں کوئی فیصلہ نہ کیا جائے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہم تو آئینی بینچ نہیں ہیں، ہم نے کیا کرنا ہے، ہم تو ویسے ہی گپ شپ کر رہے ہیں۔
احسن بھون نے کہا کہ اس لیے ہم چاہتے تھے کہ آئینی عدالت بنے، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ تھوڑا دھکا اور لگا کر آئینی عدالت بنا لیتے۔ احسن بھون بولے کہ دھکا تو ہم نے لگایا تھا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہم نے آرٹیکل 191 اے کا جائزہ لینا تھا، جائزے کے دوران کیس بینچ سے واپس لے لیا گیا۔ احسن بھون بولے، مجھے گزارش تو کرنے دیں۔
دوران سماعت جسٹس منصور علی شاہ اور احسن بھون کے درمیان دلچسپ مکالمہ ہوا۔ احسن بھون نے جسٹس منصور سے کہا کہ اس کیس میں جتنے عدالتی فیصلوں کے حوالے دیے جارہے ہیں، وہ 26ویں ترمیم کے بعد غیرمثر ہوچکے ہیں، آپ ججز کمیٹی کا حصہ ہیں، آپ بیٹھیں یا نہ بیٹھیں یہ الگ بات ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میں تو جوڈیشل کمیشن کا بھی ممبر ہوں۔ اس بات پر احسن بھون بولے کہ جوڈیشل کمیشن اجلاس میں ججز بھی لگائے جا رہے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ بولے کہ ہم جو ججز نامزد کرتے ہیں انہیں تو ایک ہی ووٹ ملتا ہے، وہ بھی ہمارا ہی ہوتا ہے، باقیوں کو 11، 11 ووٹ پڑ جاتے ہیں، یہ تو گپ شپ لگتی رہے گی۔ جسٹس منصور علی شاہ کی بات پر عدالت میں قہقہے گونجنے لگے۔
سپریم کورٹ نے عدالتی حکم کے باوجود بینچز اختیارات کیس سماعت کے لیے مقرر نہ ہونے کے معاملے پر منگل کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل نذر عباس کو عہدے سے ہٹانے کا حکم دیا تھا۔ بعدازاں، ایڈیشنل رجسٹرار ایڈمن نے نذر عباس کو او ایس ڈی کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے انہیں تاحکم ثانی رجسٹرار آفس کو رپورٹ کرنے کی ہدایت کی تھی۔